Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

ترک روس میزائل معاہدہ اور امریکہ

$
0
0

نیٹو نے مشکلات میں ترکی کی فوجی قوت کو استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا تاہم جب ترکی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو نیٹو مختلف حیلوں بہانوں سے ترکی کی مدد سے کتراتا رہا ہے۔ قبرص اور دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے معاملے میں ہم پہلے ہی نیٹو کے اتحادی ممالک کا ترکی سے متعلق رویہ دیکھ چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی نیٹو نے کوئی قابلِ ذکر مدد نہ کی جب ترکی پر شامی سرحدوں کی جانب سے مسلسل گولہ باری کی جا رہی تھی اور ترکی نیٹو سے پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا لیکن امریکہ نے ترکی کو براہ راست پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کے بجائے عبوری عرصے کے لئے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں موجود پیٹریاٹ میزائلوں کو نصب کر دیا۔ ترکی نے امریکہ پر دبائو ڈالا لیکن امریکہ کسی بھی صورت ترکی کو پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے پر کچھ عرصہ قبل تک راضی نہ ہوا اور صرف اس وقت نرمی دکھانا شروع کی جب ترکی نے روس کے ساتھ ایس- 400 دفاعی نظام خریدنے کے سمجھوتے پر دستخط کئے۔

ترکی کے نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے روس کے ساتھ کبھی بھی امریکہ جیسے قریبی تعلقات قائم نہیں رہے ہیں بلکہ امریکہ ہمیشہ ہی ترکی کو روس کے خلاف مختلف طریقوں سے استعمال کرتا رہا ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں ذیلی شاخ ’’وائی پی جی‘‘ اور ’’پی وائی ڈی‘‘ کی پشت پناہی کئے جانے پر ترکی نے کئی بار امریکہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی لیکن امریکہ نے کوئی کان نہ دھرے جس پر دونوں ممالک کے تعلقات منفی طور پر متاثر ہونا شروع ہو گئے لیکن نومبر 2015 میں ترکی کے ایف 16 طیاروں کے شام اور ترکی کی سرحد کے قریب ایک روسی ’’سخوئی-24‘‘ جنگی طیارے کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ترکی اور امریکہ تو ایک دوسرے کے قریب آگئے لیکن روس اور ترکی کے تعلقات جو کچھ حد تک بہتری کی جانب گامزن تھے متاثر ہوئے.

تاہم روس اور ترکی کے درمیان یہ سرد مہری زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی بلکہ صدر ٹرمپ کی ترکی کے بارے میں اپنائی جانے والی منفی پالیسی کی بدولت روس اور ترکی ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آگئے اور اسی دوران ترکی نے اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لئے روس سے ایس 400 میزائل خریدنے کے سمجھوتے پر دستخط کر دئیے جس پر امریکہ جو ترکی کو کسی بھی صورت پیٹریاٹ میزائل دینے پر تیار نہ تھا، نے نرم پالیسی اختیار کرتے ہوئے ترکی کو پیٹریاٹ میزائلوں کی فروخت کے بارے میں نئی آفر دینے کے ساتھ ساتھ روس سے ایس-400 میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے کو منسوخ کرنے کے لئے دبائو ڈالنا شروع کر دیا لیکن صدر ایردوان کئی بار برملا کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک ایس-400 میزائل نظام کے حصول کے معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کرے گا اور ان میزائلوں کوحاصل کر کے ہی دم لے گا۔

روس کا یہ میزائل نظام 400 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ہی وقت میں تقریباً 80 اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ میزائل نظام فضا میں نچلی سطح پر پرواز کرنے والے ڈرونز سمیت مختلف بلندیوں پر پرواز کرنے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں کو بھی نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ روس سے ایس-400 دفاعی نظام حاصل کرنے سے ترکی کی دفاعی صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہو گی لیکن امریکہ کسی بھی صورت اس سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے کے حق میں نہیں ہے، اس لئے اس نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکی انتظامیہ کا موقف ہے کہ روسی ساخت کے اس میزائل دفاعی نظام سے روس مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جاسوسی کرنے کے ساتھ تمام متعلقہ معلومات حاصل کر سکے گا۔

اسی لئے امریکہ نے ترکی کو جولائی کے آخر تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سے ایف 35 جنگی جہاز خریدنے یا روس سے طیارہ شکن میزائل سسٹم خریدنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شانہان نے ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آقار کو دھمکی آمیز خط لکھتے ہوئے حکومتِ امریکہ کے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ روس کا دفاعی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہ عالمی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں روس سے اس دفاعی نظام کو خریدنے سے باز آنے اور امریکی پیٹریاٹ طیارہ شکن میزائل خریدنے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اس بات کا کئی بار برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت روس کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے سے باز نہیں آئیں گے، ترکی ایک آزاد ملک ہے اور وہ اپنے دفاع اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ترکی امریکہ کے ساتھ 100 امریکی ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کے معاہدے پر ان میزائلوں کی خریداری کے سمجھوتے سے قبل ہی دستخط کر چکا ہے اور طے پانے والے سمجھوتے کی رو سے ایف 35 طیارے کے پرزے بنانے کے لئے 937 ترکی کمپنیاں پہلے ہی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کی ایک سینئر اہلکار ایلن لارڈ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی نے مقررہ مدت تک روسی ایس 400 طرز کے میزائل دفاعی نظام کی خريداری سے متعلق ڈيل کو منسوخ نہیں کيا، تو امریکہ ميں ترک پائلٹس کی تربیت کا عمل روک دیا جائے گا۔

ترک پائلٹس ان دنوں امریکہ میں ہیں اور F-35 اڑانے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی ایف 35 جنگی طیاروں کی تیاری کے لیے ترک کمپنیوں سے طے شدہ معاہدے بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ امریکہ اور نیٹو کے دبائو کے باوجود ترک صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی ایس400 دفاعی میزائل حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اب روس کے ساتھ ایس 500 جدید میزائل دفاعی نظام مشترکہ طور پر تیار کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میں روس کے ساتھ مذاکرات میں بڑی حد تک پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ ترکی کے اس رویے اور عزم سے یہ بات عیاں ہے کہ ترکی روس سے لازمی طور پر ایس 400 دفاعی نظام نہ صرف حاصل کرے گا بلکہ وہ روس کے ساتھ آئندہ مشترکہ طور پر ایس 500 دفاعی نظام تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کر چکا ہے چاہے اسے امریکہ سے ایف 35 ایک سو عدد جنگی طیارے حاصل ہوں نہ ہوں ۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>