چار عہد کی گواہ ’’عمارت سول سیکرٹریٹ‘‘ سے ذرا اونچائی پر مقبرہ انارکلی واقع ہے۔ یہ محبت کی داستان کے مشہور کردار انارکلی کا مقبرہ ہے۔ بائیں جانب کونے میں سفید سنگ مرمر سے بنی انارکلی کی قبر ہے۔ چاروں طرف محرابی دروازوں کے درمیان مغل بادشاہوں اور شہزادوں کی منی ایچرز اور قدیم سکّے پڑے تھے۔ انارکلی کی قبر کے ساتھ انگریزی زبان میں اس کی تاریخ لکھی تھی۔ روایت یوں ہے کہ نادرہ بیگم عرف شرف النساء اکبر بادشاہ کے حرم سرا میں ایک خوب صورت کنیز تھی جس کے حُسن سے متاثر ہو کر اکبر نے اسے ایک موقع پر انار کلی کا خطاب دیا تھا۔
سلیم جو اس وقت شہزادہ تھا، انارکلی کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ وہ چُھپ کر اسے ملتا، بات محل میں پھیل گئی۔ پھر ایک بار دربار میں اکبر نے خود انارکلی کو آئینے میں سلیم کو محبت اور سرور سے دیکھتے ہوئے اندازہ کیا کہ واقعی انارکلی شہزادے پر فدا ہے۔ اس نے شہزادے کو دارالخلافہ سے باہر کسی مہم پر بھیج دیا اور انارکلی کو اس جگہ اب سول سیکرٹریٹ میں جہاں اس کا مقبرہ ہے، اینٹوں میں زندہ دفن کر دیا اور دیوار چُن دی۔ ان دنوں یہ جگہ بالکل ویران تھی۔ شہزادے کو اس پر بہت دُکھ ہوا۔ اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا لیکن بے بسی میں کچھ نہ کر سکا۔ 6 سال بعد اکبر بادشاہ کے انتقال پر شہزادہ سلیم جہاںگیر کے نام سے شہنشاہ ہند بنا۔
اس نے چُنی ہوئی دیوار کی جگہ انارکلی کا ایک خوب صورت مقبرہ تعمیر کیا جو مغل طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ قبر پر ایک طرف جہانگیر کا اپنا شعر فارسی میں تحریر ہے اور نیچے ’’سلیم اکبر‘‘ لکھا ہے جو شہزادے کا نام تھا۔ ’’انارکلی کو زندہ دیوار میں چننے کا واقعہ 1599ء میں ہوا۔ 1605ء میں جہانگیر تخت نشین ہوا اور 1615ء میں جہاںگیر کے حکم پر یہ مقبرہ اور باغ مکمل ہوا۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ سارا واقعہ محض افسانہ ہے۔ دراصل یہ مقبرہ جہاںگیر کی چہیتی بیوی قدسی منش خاتون کا ہے وہ زین خاں کوکہ کی دختر اور شہزادہ سلطان پرویز کی والدہ تھیں۔ اکبر اس شادی کے خلاف تھا لیکن اکبر نے بیٹے کا جنون دیکھ کر شادی کی اجازت دے دی تھی۔
یہ بیگم 1003ھ میں لاہور میں انتقال کر گئی۔ سلیم نے اس کی آخری آرام گاہ پر یہ مقبرہ تعمیر کرایا۔ انارکلی باغ کی وجہ تسمیہ یہ ہو سکتی ہے کہ اناروں کے باغ کی وجہ سے یہ پہلے انار باغ تھا اور رفتہ رفتہ انارکلی ہو گیا۔ بہر حال مقبرے کی عمارت گول طرز میں بنی ہوئی ہے۔ جس کے اوپر ایک بڑا اور وسیع گنبد ہے جو مغل طرز تعمیر کی ایک خاص صفت ہے۔ آٹھ بڑے اور کشادہ محراب نما دروازے ہیں جن کی چوڑائی 14 فٹ ہے۔ سنگ مرمر کا نہایت عمدہ کام ہے جو ابتدائی مغل دور میں برصغیر میں رائج ہوا۔ مشرق سے مغرب تک اس عمارت کی وسعت 72 فٹ تک ہے۔ اس زمانے میں اس مقبرے کے ساتھ وسیع باغات تھے ۔ راوی بھی مقبرے کی دیواروں کے ساتھ بہتا تھا۔
رنجیت سنگھ کے زمانے میں انار کلی کا مقبرہ اس کے جانشین کھڑک سنگھ نے اپنی رہائش کے طور پر استعمال کیا۔ مقبرے کا چبوترہ جو سنگ مر مر کا تھا وہ مہا راجا نے پہلے ہی اتروا لیا تھا اور پھر ایک تعویذ کو غائب کر دیا گیا۔ انگریزوں نے مقبرہ کو گرجا گھر بنا کر اس کا نام سینٹ جیمس چرچ رکھ دیا اور بُرج کلاں پر سنگ سرخ کی دو فٹ لمبی ایک صلیب لگا دی اور قبر کے مرمریں تعویذ جس کو سکھ حکومت کے عہد میں ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا تھا ، ایک گوشہ میں رکھ کر بند کر دیا۔ مال روڈ پر جب نیا چرچ بنا تو یہ چرچ ختم ہو گیا ۔ 1891ء میں اسے ریکارڈ آفس میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب بھی مقبرے کی عمارت میں ریکارڈ آفس (آر کائیوز) قائم ہے۔ مگر اسے مقبرہ انار کلی کی حیثیت سے لازوال حیثیت حاصل ہے جس کی قبر پر جہاں گیر کا دردناک شعر درج ہے اور جس کا مطلب کچھ یوں ہے: ’’آہ ! کاش میں اپنی محبوبہ کا چہرہ ایک بار پھر دیکھ سکتا۔‘‘