اطالوی فنکار لیونارڈو ڈا ونچی کی پورٹریٹ پینٹنگ ’’مونا لیزا‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے مقبول، سب سے قیمتی اور سب سے زیادہ زیادہ دیکھی جانے والی پینٹنگ ہے لیونارڈو صرف مصور نہیں تھا بلکہ سائنس دان، ماہر تعمیرات اور موجد بھی تھا اور اسے انتہائی ذہین انسان سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس کی پینٹنگ کو بھی غیرمعمولی سمجھا جانے لگا۔ اگرچہ بعدازاں پیش کردہ شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس اور تعمیرات میں اس نے کوئی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام نہیں دیا، لیکن اکیسویں صدی تک وہ انتہائی ذہن فرد کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔ لیو نارڈو نے اسے 1503ء سے 1506ء کے درمیان پینٹ کیا، البتہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 1517ء تک کسی نہ کسی شکل میں اس پر کام کرتا رہا۔
اب یہ فرانس کی ملکیت ہے اور پیرس میں واقع لوویرے عجائب گھر میں 1797ء سے نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے جہاں اسے دیکھنے والوں کا تانا بندھا رہتا ہے۔ لازماً سوچا جاتا ہے کہ ایک عورت، جسے زیادہ حسین بھی نہیں کہا جا سکتا بغیر زیور پہنے، سادہ لباس میں کرسی پر بیٹھی نظریں جمائے سامنے دیکھ رہی ہے، بس۔ آخر اس پینٹنگ میں ایسا کیا ہے! اس بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اس میں جہاں مصور کا کمال ہے وہیں حادثاتِ زمانہ کا بھی ہاتھ ہے۔ بلاشبہ یہ نہایت عمدہ پینٹنگ ہے جس میں مونا لیزا کے تاثرات کو عام طور پر پُراسرار اور پیچیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان تاثرات کے معنی کیا ہیں، اس بارے میں آرا بہت سی ہیں لیکن کسی ایک کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ مونا لیزا کرسی پر تن کر بیٹھی ہے۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر آرام سے رکھا ہوا ہے جو کہ پُروقار اور اخلاقیات کی پابند عورت کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی زندہ صورت سامنے ہو۔
لیونارڈو نے اس میں لائنوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ مصوری کی وہ تکنیک برتی جسے ’’سفو ماٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں رنگ ایک دوسرے میں آہستگی سے جذب ہوتے ہیں اور انسانی نظر کسی ایک مقام پر ٹھہر نہیں پاتی۔ اس مقصد کے لیے لیونارڈو نے عدسوں اور انسانی نظر پر اپنی تحقیق سے استفادہ کیا۔ مونا لیزا کے پیچھے ایک خیالی قدرتی منظر کو پیش کیا گیا ہے۔ لیونارڈو نے اردگرد کے ماحول کو مرکزی کردار پر اثر ڈالنے کے لیے برتا۔ مونا لیزا کی پلکیں اور بھنویں دکھائی نہیں دیتیں جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس دور میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی عورتیں انہیں اتروا بھی دیا کرتی تھیں۔ لیونارڈو کے ایک دوست کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت فلورنس کے مالدار تاجر فرانسسکو ڈل جیوکونڈو کی بیوی لیزا جیرار ڈینی ہے۔
مونا لیزا کی نظروں اور ہلکی سی مسکراہٹ کو انیسویں صدی تک پراسرار نہیں کہا جا تا تھا، تاہم آج اس کے تاثرات پر خاصے مباحثے ہوتے ہیں۔ بہت سی دوسری اچھی پینٹنگز بھی ہیں جن کی خوبیاں کم از کم اس پینٹنگ کے ہم پلہ ضرور ہوں گی لیکن وہ مونالیزا جتنی خوش قسمت نہیں۔ یہ پینٹنگ لوورے میں ہے، جو ان عجائب گھروں میں سے ہے جس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے۔ یہ ابتدا میں فرانس کے بادشاہ فرانسس اول کے پاس آئی۔ اسی بادشاہ کے دربار میں لیونارڈو نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ فرانسیسی محل میں یہ پینٹنگ صدیوں تک عام لوگوں سے اوجھل رہی۔ پھرفرانس میں ایک عوامی ابھار آیا جسے انقلابِ فرانس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فنون کے شاہی ذخیرے کو عوامی ملکیت قرار دے دیا گیا۔
پینٹنگ نے کچھ وقت نپولین کے سونے کے کمرے میں گزارا۔ انیسویں صدی کی آمد پر یہ لوورے عجائب گھر میں لگا دی گئی۔ لوورے کی سرپرستی بڑھنے کے ساتھ مونا لیزا کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔ لیونارڈو یورپی نشاۃ ثانیہ کا اہم کردار تھا اور انیسویں صدی میں نشاۃ ثانیہ کے بارے میں سکالرز کی دلچسپی بھی بڑھ چکی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ 1911ء میں ’’مونا لیزا‘‘ چوری ہو گئی جسے ذرائع ابلاغ نے بہت زیادہ کوریج دی۔ لوگ دھڑا دھڑ اس خالی جگہ کو دیکھنے آئے جہاں کبھی یہ نصب تھی۔ ایسا ہنگامہ ہوا کہ عجائب گھر کے ڈائریکٹر نے استعفیٰ دے دیا اور مشہور مصور پابلو پکاسو تک کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں پینٹنگ کو ریاست ہائے متحدہ امریکا اور جاپان کی سیر کرائی گئی جس سے اس کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔ المختصر، پینٹنگ بہت اچھی ہے لیکن اس کی شہرت میں بہت سے دیگرعوامل کار فرما ہیں۔