اسرائیل کے وزیر دفاع ایوگڈار لیبرمین نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کے ساتھ فائربندی قبول کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کی حکومت کے پاس ایوان میں صرف ایک نشست کی برتری رہ گئی ہے اور قبل از وقت انتخابات کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ لیبرمین نے اپنے اس فیصلے پر نیوز کانفرنس میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے عہدے سے اپنے استعفی کا اعلان کر رہے ہیں۔ لیبرمین کا کہنا تھا کہ حماس کے ساتھ معاہدہ اور سیز فائر خوف اور دہشت کا دباؤ قبول کرنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو کسی اور طرح سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس معاہدے کا حوالہ دے رہے تھے جس کے تحت غزہ میں حماس کے ساتھ فائر بندی ہوئی۔ معاہدے سے قبل حماس نے اسرائیل پر 400 سے زیادہ راکٹ داغے تھے اور جواباً اسرائیل نے غزہ پر ایک سو سے زیادہ فضائی حملے کیے تھے۔ نتن یاہو نے کہا تھا کہ فائربندی کرنا غزہ میں جنگ کرنے سے زیادہ بہتر ہے، لیکن اس بارے میں اسرائیل میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو حماس پر سخت دباؤ ڈالنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
لیبر مین کے اس اقدام کے نتیجے میں 120 رکنی ایوان میں نتن یاہو کی حکومت کے پاس صرف ایک نشست کی برتری رہ گئی ہے۔ لیبر مین کے سب سے بڑے حریف وزیر تعلیم نفتالی بینٹ نے کہا ہے کہ اگر انہیں وزیر دفاع مقرر نہ کیا گیا تو ان کی جماعت حکومت سے الگ ہو جائے گی۔ ہیبرو یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر اورہام ڈسکن نے کہا ہے کہ ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ نتن یاہو بینٹ کو یہ عہدہ دینے پر رضامند ہو جائیں گے۔ اسرائیل میں سیاسی افراتفری نتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے متعدد الزامات سامنے آنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے جو انہیں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر نتن یاہو کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور بھی ہونا پڑے تو بھی ان کے بائیں بازو کی جماعت لیکڈ پارٹی اگلا الیکشن جیت جائے گی۔