مئی کی پہلی تاریخ (1945ئ) کو روسی ریڈ گارڈز کو حکم دیا گیا کہ امپیریل چانسلری (جرمن چانسلر کا دفتر) پر شدید گولہ باری کی جائے۔ ویسے برلن کے ہر گلی کوچے میں جنگ ہو رہی تھی اور نازیوں نے تقریباً تمام عمارتوں کو مورچہ بنا رکھا تھا۔ شہر کی مضافاتی بستیوں سے لے کر خود برلن تک میں ہر طرف عمارتوں کے ملبے اور فوجیوں کی لاشیں پھیلی ہوئی تھیں۔ بے شمار زخمی علیحدہ تڑپ رہے تھے مگر لڑائی کا اب پورا زور ہٹلر کی امپریل چانسلری کی طرف تھا۔ آٹھویں ریڈ گارڈ آرمی نے حکم ملتے ہی یک دم چانسلری پر قیامت کی گولہ باری شروع کر دی جس سے آس پاس کی سرکاری عمارتیں اور خود چانسلری ہل اٹھی۔ مگر چانسلری اور اس کے نواح سے بھی روسیوں پر جوابی آگ برسائی جانے لگی۔
اب ٹینکوں کی جنگ نہ رہی تھی کیونکہ یہ شہر کا معاملہ تھا۔ اب تو چھوٹی بڑی توپیں گرج رہی تھیں اور رائفلز استعمال کی جا رہی تھیں جو انسانی خون کی ندیاں بہا رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک جنرل نے خوشخبری سنائی کہ چانسلری کے قریب ایک اہم مقام پر قبضہ کر لیا گیا اور اب ایک بلاک کے پاس لڑائی ہو رہی تھی۔ یہ بلاک گسٹاپو کا مرکز تھا۔ یہاں روسی اور نازی جان توڑ کر لڑے۔ کبھی روسی آگے بڑھ جاتے کبھی نازی انہیں پیچھے دھکیل دیتے۔ چونکہ نازی تقریباً محصور ہو گئے تھے، اس لیے ان کا گولہ بارود کم ہوتا جا رہا تھا اور وہ کفایت کے ساتھ اسے استعمال کر رہے تھے۔
اس کے برخلاف روسیوں کے پاس گولہ بارود کی فراوانی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خونریزی کے بعد اس بلاک پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا اور یہاں قائم گسٹاپو اڈا ختم ہو گیا جس کے بعد نازیوں کی زہر افشانی بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی، کیونکہ یہیں سے ذرا ذرا سے شبہ پر حکم صادر ہوتا کہ فلاں فرد یا جماعت کو گولی سے اڑا دیا جائے یا فلاں کو زہر دے دیا جائے، یہیں پر بسمارک اعظم اور مولٹکے کے مجسمے تھے جن کے سامنے روسی تاریخ میں تیسری مرتبہ برلن میں داخل ہو رہے تھے۔ غرض اب تیزی سے خبریں آ رہی تھیں کہ ریڈ گارڈز نے چڑیا گھر پر قبضہ کر لیا، ریس کلب کی دیواروں تک جا پہنچے۔
تمام دن بندوقیں اور توپیں چلتی رہیں، جن کے دھماکوں سے کان کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ آخر رات آگئی اور لڑائی کا زور بھی گھٹ گیا۔ رات کو نازی افسر دفاع کی تیاری میں سرگرم رہے، دوسری طرف روسی بھی اپنی مزید پیش قدمی کے پلان بنانے میں مصروف تھے۔ دونوں طرف سخت بے اطمینانی اور اضطراب کا عالم تھا اور شہریوں کی تو یہ حالت تھی کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ جنگ کی ہولناک راتوں میں کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ بچے رات کے وقت دن کی تباہ کاریوں سے گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔
بچے تو آخر بچے ہی ہوتے ہیں، کسی رات کو قدرے سکون ہوتا تو گھروں سے نکل بھاگتے اور کھیلنے کے لیے تفریحی میدانوں کی طرف لپک پڑتے، والدین کو جو خبر ہوتی کہ بچے باہر نکل گئے تو کلیجہ تھامے ان کے پیچھے دوڑتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ایک طرف تو والدین گولیوں کا نشانہ بنتے، دوسری طرف معصوم بچوں کے ننھے جسم گولیوں سے چھلنی ہو جاتے۔ آخر دو مئی کو جرمن ریڈیو نے روسی افسروں کے نام ایک پیغام نشر کیا کہ لڑائی بند کر دی جائے، بعض ذمے دار نازی افسر روسی کمان سے کچھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ روسیوں نے لڑائی بند کر دی۔ کہنا چاہیے کہ فائرنگ روک دی گئی تھی اور نازیوں کو مطلع کر دیا گیا کہ فلاں مقام پر وہ اپنے نمائندے بھیج سکتے ہیں لیکن انہیں یہ بتا دیا گیا کہ غیرمشروط ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کسی موضوع پر بات چیت نہیں ہو گی۔ یہ ملاقات تو شاید بعد میں ہوئی ہو گی، اس سے قبل ہی نازیوں کی جانب سے اعلان کر دیا کہ ایک پورے فوجی ڈویژن کے سربراہ کی منشا کے مطابق مزید مزاحمت روک دیں گے اور ہتھیار ڈال دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے روسیوں کو آگاہ کیا کہ یہ کارروائی رات کے وقت ہونی چاہیے کیونکہ گیوبل (وزیر برائے پراپیگنڈہ) کا حکم ہے کہ اگر جرمنی کا کوئی آدمی روسیوں کی طرف جاتا نظر آئے گا تو اسے گولی سے اڑا دیا جائے گا۔ اس کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا۔
پانچ بجے روسی کمانڈر کو اطلاع ملی کی گیوبل کا ایک وفد آیا ہے۔ اس میں تین آدمی تھے اور تینوں سویلین لباس میں تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سفید جھنڈا تھا۔ ایک باوردی اور مسلح سپاہی بھی ان کے ہمراہ تھا جسے کمرے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ نازیوں کے ایک اعلیٰ افسر نے روسی کمانڈر کو ایک خط دیا جس میں تحریر تھا کہ جنرل کریبز، جو آپ سے پہلے مل چکے ہیں اب نہیں آ سکتے اور ڈاکٹر گیوبل نے خودکشی کر لی ہے لہٰذا میں آپ کو اختیار دیتا ہوں کہ آپ برلن کو اپنی پناہ میں لے لیں۔ نیچے ڈاکٹر فِرش کے دستخط تھے جو پروپیگنڈا منسٹری کا ہیڈ تھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر گیوبل ایک روز قبل خودکشی کر چکا ہے، وہ نازی پارٹی کی ناک کا بال تھا۔ اس نے بھی ہٹلر کی طرح وصیت کی تھی کہ اس کی لاش کو پٹرول کے ذریعہ جلا دیا جائے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نازیوں کے سمجھ دار اور قابل جنرل کریبز نے بھی خودکشی کر لی۔
بہر حال دو مئی کو ڈویژن نے ہتھیار ڈال دیے اور مع سازو سامان کے خود کو روسیوں کے حوالے کر دیا۔ ادھر روسی ہائی کمان نے احکام جاری کر دیے کہ برلن چونکہ فتح کر لیا گیا ہے لہٰذا اب جنگ و جدال بند کر دی جائے۔ روسیوں کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہٹلر اور گیوبل نے خودکشی کر لی ہے لیکن جب انہیں جنرل کریبز جیسے آدمی نے یقین دلایا کہ ہٹلر نے تیس اپریل کو چانسلری میں خودکشی کی اور ایک اور دو مئی کے درمیان ڈاکٹر گیوبل نے اپنے آپ کو ہلاک کیا تھا تب انہیں کچھ یقین ہوا۔ البتہ یورپ اور اس کے باہر اس کے بعد بھی لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہے کہ ہٹلر زندہ ہے اور حلیہ بدل کر دنیا کے کسی گوشہ میں روپوش ہو گیا ہے۔