خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے کے ہولناک واقعات میں اضافے کے بعد ناؤرو میں پناہ گزین بچے عالمی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں ان پناہ گزین بچوں کے حوالے سے ان مسائل کو ذہنی امراض کا بحران قرار دیا جا چکا ہے۔ ناؤرو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں آسٹریلوی حکومت نے اپنا ایک متنازع پروسسنگ سنٹر قائم کر رکھا ہے، جس پر کئی مرتبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ تاہم حال ہی میں میڈیا کی کچھ رپورٹس میں نوجوانوں کی بگڑتی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف میلبورن میں شعبےِ نفسیات کی پروفیسر لوئیس نیومن کا کہنا ہے کہ ’ہم آٹھ یا دس سال عمر کے بچوں میں بھی خودکشی جیسے رجحانات دیکھ رہے ہیں۔‘
آسٹریلیا ان تمام پناہ گزینوں کا راستہ روکتا ہے جو کشتیوں کے ذریعے اس کے ساحلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ یہ لوگ آسٹریلیا میں قیام پزیر نہیں ہو سکیں گے اور اسی لیے گذشتہ چند سالوں میں ان میں سے کئی کو نجی طور پر چلائے جانے والے پروسسنگ سنٹرز کی جانب روانہ کیا گیا ہے جو کہ پاپانیوگنی اور ناؤرو پر واقعہ ہیں۔ ان خاندانوں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان جزائر پر بچوں کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ جو شدید برے حالات انھوں نے سہے ہیں اور جن خطرناک حالات میں وہ رہتے ہیں، ان سب کی وجہ سے ان کے ذہن میں ناامیدی بیٹھ جاتی ہے۔
اسائلم سیکر ریسورس سنٹر (اے ایس آر سی) پر ڈیٹنشن ایڈوکیسی مینیجر ناتاشہ بلوچر کا کہنا ہے کہ وہ پرائیویسی کی وجہ سے لوگوں کی نجی صورتحال پر بات نہیں کر سکتیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کم از کم 15 ایسے بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہے جنھوں نے متعدد بار خودکشی کی کوشش کی ہے یا خود کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ معاملہ اب انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔ وکلا اور طبی عملے کی طرح اے ایس آر سی ان خاندانوں کی مدد کے لیے کام کرتی ہے اور ان جزائر تک رسائی انتہائی محدود ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کم از کم 30 بچے ٹرومیٹک وڈرائل سنڈروم کے مریض ہیں۔ یہ ایک نایاب نفسیاتی بیماری ہے جس میں متاثرین زندگی کے عام کام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ سنگین کیسز میں تو مریض کھا پی بھی نہیں سکتے اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ ناتاشہ بلوچر کا کہنا ہے کہ تقریباً تین ماہ قبل ہمیں یہ کہیں کہیں نظر آتا تھا۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت پھیل گیا ہے۔‘ پناہ گزینوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے آسٹریلوی حکومت کی سابق مشیر پروفیسر نیومن کا کہنا ہے کہ یہ پھیلاؤ انتہائی پریشان کن ہے۔
وہ کہتی ہیں ’کئی طرح سے تو یہ غیر حیران کن ہے۔ یہ بچے انتہائی شدید برے حالات سے گزرتے ہیں اور ناامیدی اور دنیا کی جانب سے عدم ہمدردی کا احساس بیٹھ جاتا ہے۔ وہ انتہائی غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‘ ان بچوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک اور ڈاکٹر ہیں بری فٹارفوڈ۔ ان کی تنظیم ڈاکٹرز فور ریفیوجیز کو ناؤرو جزیرے تک رسائی نہیں دی گئی ہے تاہم ان سے مشورے کے لیے لوگ رابطہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں بھیجے گئے 60 کیسز میں تمام بچوں کو کسی نہ قسم کی ذہنی بیماری ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بچے ایسے حالات سے گزرتے ہیں کہ جہاں ذہنی طور پر بیمار نہ ہونا ناممکن ہے۔ ’وہ روز خودکشی کی کوششیں، جنسی ہراساں کے واقعات اور دیگر مسائل سے گزرتے ہیں، اور ان کے سامنے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔‘ اب تک سامنے آنے والے کیسز میں سے زیادہ تر میں بچوں کا تعلق عراق، لبنان، یا روہنگیا سے ہے۔ ڈاکٹر فٹارفوڈ کہتی ہیں کہ ’تین سال تک کی عمر کے بچے غیر مناسب جنسی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو کہ تب دیکھا جاتا ہے جب بچوں پر ایسے کام کیے جا چکے ہوتے ہیں۔‘
ایک متنازع پالیسی پناہ گزینوں کو آسٹریلیا سے باہر رکھنے کی اس پالیسی کے ایک اہم حامی ملک کے نئے وزیراعظم سکاٹ مورسن تھے جن کی ماضی میں وجہِ شہرت میں سے ایک بطور سخت گیر امیگریشن وزیر ہونا بھی ہے۔ وہ اپنی امیگریشن وزارت کے دوران کشتیوں کو روکنے کی پالیسی کے ایک انتہائی سخت حامی تھے اور اب کئی برسوں بعد وہ ملک کے سربراہ بن گئے ہیں کیونکہ پناہ گزینوں کا خوف ملک میں کم نہیں ہوا۔ اس پالیسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی انتہائی کامیاب ہے اور اس کی وجہ سے غیر قانونی طور پر کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کی تعداد میں بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس ہفتے آسٹریلوی ساحل تک پہنچنے والی ایک کشتی 2014 کے بعد وہ پہلی کشتی ہے جو کہ پناہ گزین لے کر آسٹریلیا آئی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے لوگوں پر شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ سال 2015 میں ناؤرو کو 'اوپن سینٹر'قرار دے دیا گیا جس کے مطلب تھا کہ شہری وہاں جب دل چاہے آ جا سکتے تھے۔ لیکن ایسا کرنے سے جزیرے پر موجود بچوں کی زندگیاں بہتر نہیں ہوئی۔ بحرالکاہل میں واقع اس جزیرے کا حجم صرف آٹھ مربع میل ہے اور معدنی پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں مسلسل کان کنی ہوتی ہے اور بہت کم درخت اور جانور پائے جاتے ہیں۔
جیسے جیسے بچوں کی صحت کے حوالے سے بحران بڑھتا جا رہا ہے، انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی مختلف تنظیموں نے آسٹریلوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ناؤرو میں موجود 119 پناہ گزین بچوں کو وہاں سے نکال کر کہیں اور بھیج دیں۔ آسٹریلیا کی حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ 'وہ ناؤرو کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے کردار کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تاکہ وہاں موجود بچوں کو تشدد اور استحصال اور نظر انداز کیے جانے سے بچایا جا سکے۔' بیان میں کہا گیا کہ 'بچوں کی بہتری اور ان کی سہولت اور مدد کے لیے وہاں پر کئی انتظامات کیے گئے ہیں۔'
ناؤرو پر ہسپتال تو موجود ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروریات کے مقابلے میں وہ ناکافی ہیں اور اگر کسی شخص کو مخصوص نوعیت کی مدد چاہیے ہو تو اس کے لیے ناؤرو کی حکومت سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ انھیں علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔ آسٹریلوی حکومت کے بیان میں مزید کہا گیا: 'اگر کسی شخص کو ضروری طبی امداد نہیں ملتی تو انھیں تائیوان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا میں علاج کی سہولت دی جاتی ہے۔' تاہم اب بھی بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ رفرل کا سسٹم بچوں کے مسائل حل نہیں کر رہا۔ کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ عمل انتہائی سست ہے اور وہ ذہنی امراض میں ملوث بچوں کی تعداد سنبھال نہیں سکتے۔
لا فرم موریس بلیک برن کی سماجی انصاف پریکٹس کی سربراہ جینیفر کینس ان میں سے بہت سے کیسز کی سربراہی کر رہی ہیں جس کا مقصد ان جزائر پر بچوں تک فوری طبی امداد پہنچانا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ ان بچوں نے کبھی بھی آسٹریلوی سرزمین پر قدم نہیں رکھا، آسٹریلوی حکومت کی پھر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا خیال کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بچوں تک صحت کی سہولیات پہنچانے کے لیے ہمیں قانونی کارروائی کرنا پڑ رہی ہے۔‘ ’حکومت کو ان کی صحت کا نہیں بلکہ اس بات کا زیادہ خیال ہے کہ یہ پناہ گزین کہیں آسٹریلیا میں داخل نہ ہو جائیں۔‘