فن لینڈ جس کا سرکاری نام جمہوریہ فن لینڈ ہے، شمالی یورپ کا ملک ہے۔ اس کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہیلسنکی ہے۔ اس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے اور یہ یورپ کا آٹھواں سب سے بڑا ملک ہے۔ فن لینڈ میں انسانی آبادی برفانی دور یا ’’آئس ایج‘‘ میں نو ہزار قبل مسیح میں ہوئی۔ تیرہویں صدی کے اواخر سے یہ سویڈن میں ضم ہو گیا، اسی لیے آج بھی یہاں سویڈش زبان بولی جاتی ہے۔ 1809ء میں اسے روسی سلطنت میں خودمختاری دیتے ہوئے شامل کر لیا گیا۔ فن لینڈ یورپ کا سب سے پہلا ملک ہے جس نے اپنے تمام شہریوں کو ووٹ کا حق دیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد فن لینڈ دنیا کا تیسرا ملک تھا جہاں خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ 1907ء کے انتخابات میں دنیا میں پہلی بار خواتین نے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کر لیں۔ 1917ء میں انقلاب روس کے ساتھ فن لینڈ نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1917 میں فِنّی پارلیمنٹ نے اعلان کیا کہ تمام اختیارات ماسوائے خارجہ پالیسی کے، فن لینڈ کے پاس ہیں۔ 6 دسمبر 1917ء کو پارلیمنٹ نے فن لینڈ کو آزاد مملکت قرار دیا۔
اسی دوران اکتوبر 1917 میں کنزرویٹو (قد امت پسند) حکومت چنی گئی۔ 1918ء میں فن لینڈ خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ ایک طرف بالشوویکوں کے حمایت یافتہ ریڈ گارڈز تھے جنہیں سوویت روس کی حمایت حاصل تھی اور دوسری طرف وائٹ گارڈز تھے جنہیں جرمن سلطنت کی حمایت تھی ۔ اس دوران مختصر عرصے کے لیے فن لینڈ میں بادشاہت قائم کی گئی۔ اکتوبر 1918ء میں جرمن شہزادہ فریڈرک چارلس آف ہیسے کو فن لینڈ کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ لیکن اس کا دورِ حکومت بہت مختصر ثابت ہوا۔ جرمنی نے 11 نومبر 1918 کو عارضی جنگ بندی کا معاہدہ کرتے ہوئے جنرل مینرہیم کو عارضی طور پر حکومت سونپ دی۔ 1919 میں فن لینڈ نے نیا آئین منظور کیا۔ جولائی 1919 میں فن لینڈ کے پہلے صدر کے جے سٹاہل برگ نے جنرل مینر ہیم کی جگہ سنبھالی۔
فن لینڈ اب عوامی جمہوریہ بن گیا۔ آزادی کے بعد فن لینڈ کی زراعت میں اصلاحات کی گئیں۔ 1929-1918ء کے دوران بہت سے مزارعوں کو مالکانہ حقوق دیے گئے۔ 1929 میں کمیونسٹوں نے لاپوا نامی شہر میں مظاہرہ کیا۔ ردعمل کے طور پر دائیں بازو کے کمیونسٹ مخالفوں نے تحریک شروع کی جسے بعد ازاں لاپوا تحریک کا نام ملا۔ 1932 میں لاپوا تحریک نے مینتسالا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ صدر سٹاہل برگ نے اس پر قابو پا لیا لیکن اس نے باغیوں سے نرمی سے سلوک کیا۔ دوسری عالمی جنگ میں فن لینڈ نے حصہ لیا۔ 1939ء میں سوویت حکمران جوزف سٹالن کو اپنے شمالی محاذ پر حملے کا اندیشہ ہوا۔ اسے بچانے کے لیے اس نے فن لینڈ سے علاقے مانگے اور بدلے میں دوسرے علاقے دینے کی پیش کش کی جسے فن لینڈ نے ٹھکرا دیا۔ اس پر سٹالن نے طاقت استعمال کرنے کا سوچا۔
جنگ سرما یا ونٹر وار کی ابتدا 30 نومبر 1939ء میں ہوئی۔ اس میں فن لینڈ کا بھاری جانی نقصان ہوا لیکن وہ نہایت بے جگری سے لڑے۔ تاہم روسیوں کا پلہ بھاری رہا اور فن لوگوں کو امن معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنگ کا اختتام ماسکو معاہدے کی صورت میں ہوا۔ بعد ازاں فن لینڈ کو جنوب مشرقی علاقے اور جھیل لاڈوگا کے شمالی علاقے بھی دینے پڑے۔ اس جنگ میں 22 ہزار فن لوگ مارے گئے۔ جون 1941ء میں فن لینڈ نے جرمنی سے معاہدہ کر کے روس پر حملہ کر دیا۔ فن لوگوں نے تیزی سے اپنے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم دسمبر 1941 میں انگلینڈ نے فن لینڈ سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ جرمنوں کو جب سٹالن گراڈ کے مقام پر 1943ء میں شکست کا سامنا ہوا تو فن لینڈ نے محسوس کر لیا کہ اب اسے جنگ سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ شکست نوشتۂ دیوار کی مانند تھی، اس لیے فن لوگوں نے 5 ستمبر 1944 کو روس سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔
معاہدے کے بعد فن لوگوں کو کافی بڑا علاقہ روس کے حوالے کرنا پڑا۔ 1950ء میں 46 فیصد فن لینڈ کے محنت کش زراعت میں کام کرتے تھے لیکن مینو فیکچرنگ، خدمات اور تجارت میں نئی ملازمتوں کے بڑھنے سے لوگوں نے تیزی کے ساتھ دیہی علاقوں سے شہروں کا رخ کیا۔ سوویت یونین سے قریبی تعلق کے باوجود فن لینڈ نے مارکیٹ اکانومی کو جاری رکھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین سے قریبی تعلقات کی وجہ سے اس کی صنعت کو بہت فائدہ ہوا۔ عالمی جنگ کے بعد فن لینڈ میں تیزی سے معاشی ترقی ہوئی۔ 1975ء میں فن لینڈ کی کل داخلی پیداوار دنیا میں 15ویں نمبر پر تھی۔ اسی دوران فن لینڈ ایک اعلیٰ فلاحی ریاست بن کر سامنے آیا۔