اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انھیں چین میں اوغر برادری کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر تشویش ہے اور انھوں نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کا کہہ کر جنھیں گرفتار کیا گیا ہے انھیں رہا کیا جائے۔ یہ بیان اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اس وقت جاری کیا ہے جب انھیں ایک اجلاس میں بتایا گیا کہ سنکیانگ صوبے میں مسلمان اوغروں کو ’ری ایجوکیشن کیمپوں‘ میں رکھا گیا ہے۔ چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ مذہبی انتہا پسندوں کو ’ری ایجوکیشن‘ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ چین اپنے صوبے سنکیانگ میں امن میں خلل کے لیے علیحدگی پسندوں اور اسلامی عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا کہنا تھا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بیجنگ نے ’اوغر خطے کو ایک ایسے علاقے میں تبدیل کر دیا ہے جو کہ ایک انٹرنمنٹ کیمپ معلوم ہوتا ہے۔‘ چین نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ اوغر برادری کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔ تاہم چین نے ایک نایاب اعترافی بیان میں کہا کہ ’جو لوگ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے گمراہ ہیں ان کی ری ایجوکیشن میں مدد کی جائے گی۔‘ سنکیانگ صوبے میں کئی سالوں نے وقتاً فوقتاً سورش جاری رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اپنا مشاہدہ ظاہر کرتے ہوئے چینی قوانین میں ’دہشتگردی کی بہت وسیع تعریف، انتہا پسندی کے مبہم حوالے، اور علیحدگی کی غیر واضح تعریف‘ پر تنقید کی۔
چین پر الزام کیا ہے؟ ہیومن رائٹس تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اقوام متحدہ کو دستاویزات جمع کروائے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر حراست میں لیا گیا ہے اور قیدیوں کو چینی صدر شی جن پنگ کے نام پر بیعت لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ادھر ورلڈ اوغر کانگریس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ قیدیوں کو فردِ جرم کے بغیر رکھا گیا ہے اور انھیں کمیونسٹ پارٹی کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ رپورٹس میں کھانے کی کمی اور تشدد کی اطلاعات بھی دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی الزامات لگایا جا رہا ہے کہ قیدیوں کو اپنے وکیل رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کا بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب چین میں مختلف علاقوں میں مذہبی تناؤ بڑھ رہا ہے۔