Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

ترقیاتی منصوبے اور مالی مدد : چین دھیان کس بات کا رکھتا ہے؟

$
0
0

ایک طویل عرصے تک چین ایک ڈونر ریاست کے بجائے ایک ایسا ملک رہا، جو بین الاقوامی مالی امداد صرف حاصل ہی کرتا تھا۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے چین ایک بڑا ڈونر ملک بن کر ابھرا ہے لیکن بیجنگ اپنے تجارتی مفادات کو کبھی نہیں بھولا۔ چین نے سن دو ہزار سات میں ہی ’بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم‘ (آئی ڈی ای) میں حصہ ڈالنا شروع کیا تھا۔ آئی ڈی ای ورلڈ بینک کا ایسا ذیلی ادارہ ہے، جو غریب ممالک کو امداد اور قرضے فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں چین نے ترقی پذیر ممالک کو امداد فراہم کرنے سے متعلق اپنے منصوبوں میں اضافہ کیا ہے، بالخصوص مشرقی ایشیائی ممالک میں بیجنگ نے کئی ریاستوں کی مالی مدد کی ہے۔ ان امدادی منصوبوں کو چینی خارجہ پالیسی کا اہم جزو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ چین کے لیے اس کا ایک اہم مقصد اپنے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنا بھی ہے۔

سن دو ہزار سولہ کے چینی اسٹیٹ کونسل کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیجنگ نے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران 166 ممالک اور اداروں کو تقریباﹰ چار سو بلین یوآن (47.4 بلین ڈالر) کی امداد فراہم کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چین کی ترقیاتی پالیسی کے پیچھے یہ محرک کارفرما ہے کہ وہ نئی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرے، جس کے بدلے میں اس مالی فوائد بھی حاصل ہوں۔ سن دو ہزار سترہ میں ’ایڈ ڈیٹا‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ چین کی طرف سے مختلف ممالک کو دی جانے والی مالی امداد ’روایتی امداد‘ نہیں ہوتی بلکہ یہ کمرشل منصوبہ جات اور ایسے قرضوں کی شکل میں ہوتی ہے، جنہیں سود کے ساتھ واپس لوٹانا بھی ہوتا ہے۔

چین میں کارنیگی سِنگ ہُوآ مرکز فار عالمی پالیسی سے وابستہ سکالر میٹ فیرچن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چین کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد کا حجم اس سے کافی کم ہے، جسے وہ ترقیاتی مدد قرار دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں ’مالی مدد‘ سے مراد ایسی مدد ہے، جو گرانٹ ہوتی ہے یا پھر جس پر انتہائی کم سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ تاہم چین میں صورتحال مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ حکومت ’تجارت، سرمایہ کاری اور فنانس‘ کو بھی ترقیاتی امداد تصور کرتی ہے۔ چینی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کرتے ہوئے سیاسی تعلقات اور مفادات کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ صرف ’مشترکہ مفادات اور باہمی احترام‘ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین نے یہ بھی واضح کر رکھا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مالی امداد کرتے ہوئے ایسی کوئی شرط نہیں رکھتا کہ اس ملک میں اچھے طرز حکمرانی کے بنیادی لوازمات کا خیال رکھا جائے۔ اس تناظر میں میٹ فیرچن کا کہنا ہے کہ ایسے ممالک جہاں قانون کی بالادستی کا نظام کمزور ہے، وہاں چین سرمایہ کاری کرتے ہوئے مفادات حاصل کر سکتا ہے۔  امریکا کے معتبر تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک جائزے کے مطابق چین نے مالی امداد کیسے اور کسے دینا ہے، اس میں سیاست اہم کردار ادا کرتی ہے۔ متعدد رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین ایسے ممالک میں زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے، جہاں کی حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں یونیورسٹی آف وِٹ وانڈرز وانڈ کے اسکول برائے طرز حکمرانی سے منسلک پولیٹیکل اکانومی کے پروفیسر پیٹرک بانڈ نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’کبھی کبھار چین کی سرمایہ کاری انتہائی استحصال اور بدعنوانی کے علاوہ سیاسی مداخلت پر مبنی بھی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

فانگ وانگ / ع ب / م م

بشکریہ DW اردو
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>