قومی مفادات اورتقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں کس طرح آئین و قانون سے ماورأ من مانے اقدامات کئے جاتے رہے، ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور آمریت میں جب آفتاب شیر پاؤ ملک کے وزیرداخلہ تھے، حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود چار ہزار پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے ڈالروں کے عوض دوسرے ملکوں کے حوالے کر دیا گیا اور پارلیمنٹ سمیت کسی نے بھی انسانی حقوق کی پامالی کانوٹس نہیں لیا۔
اس تلخ حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بتایا کہ پرویز مشرف نے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا اعتراف بھی کیا تھا مگر ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین اورعدالتیں ہونے کے باوجود ان افراد کو آخر کیسے اور کس قانون کے تحت دوسرے ملکوں کے حوالے کیا گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جو قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین بھی ہیں کہا کہ پارلیمنٹ کو پرویز مشرف اور ان کے وزیر داخلہ کے اس اقدام کی تحقیقات کرنی چاہئے تھی مگر وہاں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ پاکستان میں قانون کو مطلوب بعض معروف شخصیات سمیت بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں موجود ہیں لیکن یہ ممالک حوالگی کے دو طرفہ معاہدے کی عدم موجودگی یا دوسری وجوہات کو جواز بنا کر انہیں پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر رہے ہیں جبکہ ایک ڈکٹیٹر نے کسی جواز کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو ڈالر لے کر دوسرے ملکوں کی تحویل میں دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ کئی غیر ملکیوں کو بھی جو پاکستان میں جاسوسی اور دوسرے جرائم میں ملوث پائے جاتے رہے، انہیں مقدمات چلائے اور سزائیں دلائے بغیر سیاسی مصلحتوں کی آڑ میں بحفاظت باہر جانے دیا گیا۔ یہ رویہ قومی مفاد ہی نہیں، ایک خود مختار قوم کی غیرت کے بھی منافی ہے۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افراد کی جانب سے کمیشن کو 368 کیسز موصول ہوئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ سے ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز پاکستان کی بجائے غیر ملکوں کے مفاد میں کام کر رہی ہیں اورانہیں فنڈنگ بھی انہی ممالک کی جانب سے ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی این جی اوز پر پابندی لگنی چاہئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ ریاست کی ذمہ داری ہیں۔
اگر لاپتہ افراد دہشت گردی میں ملوث ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اہل خانہ بھی دہشت گرد ہیں۔ ریاست کو ان کی خبر گیری کرنی چاہئے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے لاپتہ افراد اورغیر ملکیوں کو بیچے جانے والے پاکستانیوں کے بارے میں جو حقائق بیان کئے ہیں، پالیسی سازوں کو ان پر توجہ دینی چاہئے اور حکومتوں کی جانب سے اس معاملے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کے علاوہ ایسی بے قاعدگیوں کا اعادہ روکنے کےلئے ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں۔