بلاشبہ جرمن طوفان جب اٹھا تھا تو اس نے یورپ اور ایشیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تیونس میں نازی جرمنی اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان فروری 1943ء میں ایک لڑائی لڑی گئی۔ یہ جرمنوں اور امریکیوں کے درمیان براعظم افریقہ میں ہونے والی پہلی بڑی لڑائی تھی۔ تیونس کے دروں، وادیوں اور پہاڑیوں کے اس طرف سیدی بوزید تک کے تمام علاقے پر جرمن افواج کا قبضہ تھا۔ وہاں انہوں نے ٹینکوں، ہوائی جہازوں اور دوسرے جدید قسم کے فوجی ساز وسامان کے ساتھ بڑا مضبوط دفاع قائم کر رکھا تھا جس میں حملہ کرنے کی بھی پوری طاقت تھی۔
چند ہی میل کے فاصلے پر امریکیوں کی دفاعی لائن تھی جس میں ٹینک اور ٹینک شکن توپیں شامل تھیں۔ ٹینک یکے بعد دیگرے جرمن لائن پر حملہ کے لیے بڑھ رہے تھے۔ غرض ایک ایک کر کے پچاس ٹینک حرکت میں آ گئے تھے جن کا تعلق امریکا کی پہلی بکتر بند ڈویژن سے تھا۔ جرمنوں نے امریکی ٹینکوں کے نمودار ہوتے ہی اپنی ٹینک شکن توپوں کے منہ کھول دیے۔ کئی ٹینک تباہ ہو گئے اور ان میں آگ لگ گئی۔ اس سے جرمنوں میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ٹینکوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ دراصل امریکیوں کو پھنسایا گیا تھا اور جرمن اسی کے منتظر تھے۔ انہوں نے اپنی ٹینک شکن توپوں کی مار چار سو گز تک بڑھالی اور امریکی ٹینکوں میں ایک تباہی مچا دی۔
جرمنی کے مشہور جنرل رومیل کی پالیسی دراصل یہ تھی کہ آگے بڑھ کر امریکا کی ناتجربہ کار فوج پر حملہ کر دے جو فیض شلطا کے علاقے میں جنرل منٹگمری کے زیر کمان طاقتور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اسی بنا پر اس نے تیس جنوری کو تیونس کے درہ فیض پر ٹینکوں سے شدید حملہ کر دیا جہاں فرانسیسی رجمنٹ دفاع پر مامور تھی۔ جرمن افواج نے اس کا صفایا کر دیا ۔ جنرل رومیل اپنے حریفوں کی تمام کمزوریوں سے واقف تھا۔ اسے معلوم تھا کہ سیدی بوزید کے اگلے علاقے میں اتحادیوں کی افواج بڑی تیاری کے ساتھ موجود ہیں چنانچہ ان کی دم پر ہاتھ رکھنے کے طور پر اس نے چند ٹینک اس طرف روانہ کر دیے تھے۔ رومیل کی یہ کارروائی کامیاب رہی۔
امریکی بڑھ کر درہ کے دہانے تک آگئے جہاں رومیل کا دستہ ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنے کو موجود تھا۔ امریکیوں نے اس درہ پر دو شدید حملے کیے تاکہ اس پر قبضہ کر لیں۔ لیکن جرمنوں کی آرٹیلری نے انہیں بھون کر رکھ دیا، امریکیوں کو جنگی ناتجربہ کاری کی بنا پر شدید نقصان کے ساتھ پسپا ہونا پڑا اور ان کا بھی وہی حشر ہوا جو فرانسیسی فوج کا ہوا تھا۔ اس کے چند ہی روز بعد جرمن جاسوسوں نے یہ اطلاع فراہم کی کہ جنرل آئزن ہاور اپنی منتشر افواج کو جمع کر کے کسی تازہ حملہ کی تیاری کر رہا ہے۔ چالاک رومیل نے آئزن ہاور کی کوششوں کے بار آور ہونے سے قبل پیش قدمی شروع کر دی۔ 14 فروری 1943ء کو ایک سو پچاس ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سے زمین لرزنے لگی جو تین طرف سے درہ فیض میں داخل ہو رہے تھے۔
اس طرح جرمنوں نے درہ فیض سے چھ میل آگے بڑھ کر امریکی فوج اور ان کے توپ خانہ کو جا لیا اور ان پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ جرمنی کی دسویں پنسر ڈویژن نے درہ کیسرین کو گھیر لیا۔ اس دو طرفہ حملے اور حصار میں ہزاروں امریکی فوجی اپنی بڑی لائن سے کٹ گئے۔ جرمن فوج نے ایک اہم پہاڑی پر بھی قبضہ کر لیا تھا جہاں امریکا کے تقریباً پچیس ٹینک موجود تھے۔ ان میں سے پانچ ٹینک تباہ کر دیے گئے ۔ جرمنوں کے بھی تین ٹینک ضائع ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد امریکا کے چالیس ٹینک اور آ گئے۔ اب جرمن ٹینکوں کو ذرا پیچھے ہٹنا پڑا مگر جرمن ٹینک شکن توپوں نے ان میں سے بھی کئی ٹینک تباہ کر دیے کیونکہ شرمن ٹینک بھاری ہونے کی وجہ سے جلد حرکت نہ کر سکتے تھے۔
چونکہ جرمنی کی فوجوں نے قبل ازیں طبروق اور الامین کی لڑائی میں ٹینکوں کی بہت اچھی مشق کی تھی لہٰذا اس جنگ میں ان کے ٹینک ہر مقام پر امریکی ٹینکوں پر بھاری پڑ رہے تھے۔ جرمن ٹینک بڑی ترکیب سے حملہ کرتے اور اتحادیوں کے ٹینکوں کو تباہ کر دیتے۔ حالانکہ اتحادیوں کے ٹینک دور مار بھی تھے اوران کا نشانہ بھی اچھا تھا مگر اتحادیوں اور بالخصوص امریکیوں کو ٹینکوں کی لڑائی کی اچھی مشق نہ تھی۔ پھر بھی امریکیوں کا ساتھ دینے والے برطانیہ کے ٹینک جرمن ٹینکوں کا خوب مقابلہ کر رہے تھے اور اکثر غالب بھی آ جاتے تھے۔ ایک مقام پر چار امریکی ٹینک کھڑے ہوئے جرمنوں پر گولے برسا رہے تھے مگر فوجی اعتبار سے وہ درست پوزیشن میں نہ تھے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جرمنی کی ایک ٹینک شکن توپ نے معقول زاویے سے ان چاروں کو اڑا دیا۔ جرمنوں کے حملے میں اتحادیوں کے سینکڑوں آدمی مارے گئے۔ لڑائی میں جرمنی کے آٹھ ٹینک جبکہ امریکا کے چالیس ٹینک تباہ ہوئے۔ دو روز کے وقفے سے خبر آئی کہ جبل السودہ کے قریب جرمن فوجیں اتحادیوں کو مارتی ہوئی آگے نکل گئی ہیں۔ امریکا کی بقیہ فوج نے شمال کی جانب سے حملہ کیا مگر شدید نقصان اٹھا کر پسپا ہوئی۔ دوسرے روز امریکا کی پندرہویں رجمنٹ نے درہ کی دوسری طرف سے جوابی حملہ کیا لیکن بہت سے امریکی مارے گئے اور کئی ٹینک تباہ ہو گئے۔
کئی روز تک یہی حالات رہے یہاں تک کہ سترہ تاریخ کو امریکیوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ ایک بڑا حملہ کیا۔ ایک ہی حملہ میں جرمنی کے بیس ٹینک ضائع ہو گئے اور بہت سارے سپاہی مارے گئے۔ آخر جرمنوں کے پیر اکھڑ گئے لیکن وہ جلد ہی سنبھل گئے۔ انہوں نے پلٹ کر ایسا حملہ کیا کہ نقشۂ جنگ پلٹ گیا۔ شیطلہ امریکیوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور وہ درہ کی طرف بھاگ نکلے۔ پھر فضائی بمباری ہوئی جس سے جرمنوں میں انتشار پیدا ہوا اور امریکیوں نے درہ کیسرین کے اندر دو ہزار سے زیادہ شیل جھونک دیے۔ اس بگڑی ہوئی صورت حال کو دیکھنے کے لیے جنرل رومیل خود اس مقام پر آیا اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ لگایا کہ اس کے پاس ٹرانسپورٹ کے وافرذرائع نہیں اس کے علاوہ اس کی فوجیں دو طرفہ پہاڑیوں کے درمیان ہیں لہٰذا اس نے عافیت اسی میں دیکھی کہ پسپائی اختیار کی جائے۔