ترکی نے 57 اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر دنیا کی سب سے بڑی فوج بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس فوج کے قیام کا مقصد ایسا ہے کہ جان کر ہی امریکہ اور اسرائیل کے ہوش اڑ جائیں گے۔ ترک اخبار ینی شفق نے لکھا ہے کہ روئے زمین کی اس سب سے بڑی فوج کا نام ’اسلامی فوج‘ رکھا جائے گا اور یہ اسرائیل کے خلاف بنائی جائے گی اور اس فوج کی تعداد 50 لاکھ ہو گی۔ بظاہر ’اسلامی فوج‘ کی یہ تجویز ترک اخبار نے اپنی رپورٹ میں دی ہے البتہ سوال یہ ہے کہ اخبار ایسی تجویز ترک صدر رجب طیب ایردوان کے اشارے کے بغیر نہیں دے سکتا۔
اسلامی فوج کے قیام کے متعلق یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند دنوں بعد اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے جا رہا ہے اور ممکنہ طور پر جناب ایردوان اس اجلاس میں اسلامی فوج کی تجویز دیگر اسلامی ممالک کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ترک اخبار نے اپنے مقالے میں اسلامی تعاون تنظیم کے 57 رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلامی فوج بنائیں۔ اگر اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک ترکی کے اس فیصلے میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس ممکنہ اسلامی فوج کی تعداد اسرائیل کی کل آبادی سے زیادہ ہو گی اور اس کے جنگی وسائل بھی اسرائیل فوج سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
ترک اخبار نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل اور او آئی سی کے رکن ممالک کی طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک کی آبادی 1 ارب 67 کروڑ 45 لاکھ 26 ہزار 931 ہے، ان ممالک کی متحرک افواج کی تعداد 52 لاکھ سے زائد اور ان کا دفاعی بجٹ 174 ارب 70 کروڑ ڈالر یعنی تقریباً 174 کھرب 70 ارب روپے ہے اس کے مقابلے میں پورے اسرائیل کی آبادی 80 لاکھ 49 ہزار 314 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابلے میں صرف ترک شہر استنبول کی آبادی ہی 1 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ اسرائیل کی متحرک فوج کی تعداد بھی صرف 1 لاکھ 60 ہزار ہے اور اس کا دفاعی بجٹ 15 ارب 60 کروڑ ڈالر (تقریباً 15کھرب 60 ارب روپے) ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے اگر او آئی سی کے رکن ممالک اسلامی فوج بنانے پر رضامند ہو جائیں تو یہ فوج بیت المقدس پر قابض اسرائیلی فوج سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گی۔