کیا کبھی آپ نے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے سوچا کہ یہ چند بٹن دبانے پر معلومات کا سمندر کیسے ہمارے سامنے پلک جھپکتے آ موجود ہوتا ہے؟ چلیں ہم بتاتے ہیں۔ آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اس کی وجہ سے پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ اب کم و بیش ہر طرح کی معلومات ہر انسان کی دسترس میں ہیں۔ ہم اپنے پیاروں سے بات کرتے ہیں، تحریری پیغام بھیجتے ہیں، ویڈیو کال کرتے ہیں، تصاویر ارسال کرتے ہیں، خبریں پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔ بہت سی کتابیں، گانے ، فلمیں ڈاؤن لوڈ کرتے ریڈیو سنتے اور آن لائن گیم کھیلتے اس کے علاوہ چیزوں کی بکنگ کرتے ہیں۔ یہ فنگر ٹپس پر دستیاب ہوتا ہے۔
اس کا واحد بہترین ذریعہ ہے انٹرنیٹ۔ اب یہ آیا کہاں سے؟ کس نے بنایا ؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے دراصل یہ کئی ذہین انسانوں کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انٹرنیٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں یہ جے سی آر لکائیڈر نامی سائنسدان تھے جنھوں نے اس کی بنیاد ’’انٹر گلیکٹک نیٹ ورک‘‘ کا تصور پیش کر کے رکھی۔ دراصل یہ ایک ایجنسی سے تعلق رکھتے تھے جس کا نام ڈی ارپا یعنی ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ پروجیکٹ تھا۔ اس کا اولین مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی معلومات تک رسائی دینا ممکن بنانا تھا۔ بس اس خواب کو لے کر وہ میدان میں اتر گئے اور ڈی ارپا کے ہیڈ بنے۔ ان کے دو بیٹوں نے 1970 کی دہائی میں انٹر گلیکٹک نیٹ ورک کا نام انٹرنیٹ رکھ دیا اور اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹی سی پی ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول کا نظام متعارف کروایا۔
اس کے بعد ڈاکٹر رابٹ کلف نے ایک تار ایجاد کیا جسے اتھرنیٹ کو ایکسیل کیبل کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں ڈیٹا ٹرانسفر کیا جا سکتا تھا جیسے فائل، ٹیکسٹ وغیرہ۔ مگر یہ محدود جگہ میں کام کر سکتا تھا صرف آفس، اسکول یا کسی عمارت کے اندر۔ پھر 1980 کی دہائی میں ان دونوں بیٹوں کرف اور بوب نے ڈی ارپا کا نام تبدیل کر کے ارپا نیٹ رکھ دیا اور ساتھ یہ شرط رکھ دی جسے بھی انٹرنیٹ درکار ہو اسے ٹی سی پی لینا ہو گا، یہ ابھی شروعات تھی۔ مزید ترقی اس وقت ہوئی جب ڈاکٹر جوہن پوسٹل نے ویب کی بنیاد رکھی۔ اس طرح مختلف اداروں کے لیے الگ الگ طریقوں سے سرچ کیا جا سکتا تھا جیسے آج ہم .gov،.edu،.org.،com لکھ کر کھولتے یا کھوجتے ہیں.
لیکن ابھی تو انٹرنیٹ کا سفر بمشکل شروع ہی ہوا تھا۔ 1980 کی دہائی کے اواخر میں ایک بار پھر کرف اور بوب نے اہم قدم اٹھایا اور ایک کمپنی آئی ایس پی کی بنیاد رکھی یعنی انٹرنیٹ سروس پروائیڈر۔ اس کے دو فائدے ہوئے ایک ان کے والد کا خواب پورا ہوا دوسرا برسوں کی محنت اب کاروبار میں بدلنے والی تھی کیونکہ انٹرنیٹ کنکشن اب گھر گھر جا سکتا تھا بالکل ٹیلیفون وائر کی طرح اور اس کے ساتھ ایک رسیور بھی دیا جاتا جس کو ہم موڈیم کے نام سے جانتے ہیں۔ یوں بآسانی کسی بھی صارف کا کمپیوٹر انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ منسلک ہو جاتا تھا اور کمپنی اس کا بل وصول کرتی تھی۔
یہ ڈائل اپ سسٹم کہلاتا ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ٹم برنلس نے (www) وضع کی یعنی ورلڈ وائیڈ ویب۔ اس اضافے کے بعد بہت سے کام اب آن لائن ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی حیرت انگیز انقلابات کا راستہ استوار کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی۔ سب سے پہلے کھانے کی ایک کمپنی نے آن لائن سروس کو اپناتے ہوئے پیزا بک کرنا انتہائی آسان کر دیا مگر ابھی بھی کافی کمیاں تھیں۔ نوے کی دہائی کے وسط میں پہلی ای میل سروس لانچ ہوئی برقی خط بذریعہ انٹرنیٹ کہیں بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ اس کے تقریباً دو سال ہمارا جانا مانا سرچ انجن (گوگل) لاؤنچ ہوا۔ 1999 میں انٹرنیٹ کے تاروں سے تنگ آکر ایک نوجوان نے ذرا الگ طرح سے سوچنا شروع کیا۔
وہ سوچ یہ تھی کہ جیسے آواز بنا تار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے ریڈیو میں تو کوئی ڈیٹا کیوں نہیں اسی جدوجہد میں وائی فائی کا جنم ہوا یعنی کہ وائرلیس فڈیلیٹی جس سے موڈیم پر بھی فرق پڑا یہ ایک اہم سنگ میل تھا جو آج ہمارے لئے کافی کارگر ہے اس کارنامے کو انجام دینے والے کا نام نیپسٹر ہے۔2001 میں وکیپیڈیا ویب سائٹ بنی اسے ایجوکیشن کا کوئی بھی معاملہ حل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا مگر اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 2003 کی آمد کے ساتھ انٹرنیٹ پر تفریح کا سامان مہیا ہونے لگا۔