↧
عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
قانونی مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے قانون سازوں کی نااہلی پر مختلف فیصلے دیے ہیں، مثلاً این اے 101 سے کامیاب ہونے والے افتخار احمد چیمہ کو 2015ء میں اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے ضمنی انتخاب لڑا اور اپنی نشست دوبارہ حاصل کر لی۔ مگر رائے حسن نواز کے مقدمے میں فاضل عدلیہ نے انہیں شق 62 (1) (ف) کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ اسی طرح عدالت نے جمشید دستی کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی مگر رضوان گِل، ثمینہ خاور حیات اور عامر یار کو اسی شق کے تحت نااہل قرار دیا۔ نواز شریف کے مخالفین حیران ہیں کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹا دیے جانے کے باوجود پارٹی کی صفوں میں کوئی ہلچل نہیں اور ان کا یہی کہنا ہے کہ فیصلہ ان کی ’توقعات کے مطابق‘ تھا اور دوسرا یہ کہ وہ اس سے بھی زیادہ کڑے وقت سے گزر چکے ہیں جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا بلکہ انہیں جبری جلاوطنی پر بھی بھیج دیا تھا۔
قانونی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مبہم ہے اور عدالت کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مخصوص حکم کہ ’نواز شریف کا تمام متعلقہ دستاویزات سے بحیثیت مسلم لیگ (ن) کے صدر/پارٹی سربراہ کے طور پر نام ہٹا دیا جائے‘ کی مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے حوالے سے مزید تشریح کی جانی چاہیے۔ ماہرِ قانون اور سابق سینیٹر ایس ایم ظفر کے مطابق گیند اب الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔ فاضل عدالت کے فیصلے میں موجود ابہام کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اب سینیٹ انتخابات کے ایک نئے شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ پارٹیوں کو امیدوار منتخب کرنے کے لیے مزید وقت مل سکے۔ ایس ایم ظفر کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی اب بھی قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ آزاد حیثیت میں انتخابات لڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کوئی بھی خطرناک صورتحال جنم لیتے ہوئے نہیں نظر آ رہی، اور یہ کہ میری دعا ہے کہ سینیٹ انتخابات وقت پر ہوں۔‘
↧