↧
کیا سابق جرنیلوں کا احتساب واقعی ہو سکے گا ؟
اُس وقت فوج کے سابق اہلکاروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی گونج جب میڈیا پر زیادہ سنائی دینے لگی تو جنرل کیانی کو بیان دینا پڑا تھا کہ ماضی میں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں بہتر یہی ہے کہ تمام فیصلے قانون پر چھوڑ دیں اور ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہیے کہ ملزم صرف اس صورت میں ہی مجرم قرار پاتا ہے جب مجرم ثابت ہو جائے۔ دوسری جانب لاہور میں ریلوے کی اراضی کی لیز میں بدعنوانی کا دبا ہوا معاملہ دوبارہ خبروں میں اس وقت آیا جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی اور 2016 میں وفاقی وزیر ریلوے نے 2001 میں طے پانے والے لیز کے معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والے رائل پام کنٹری کلب کو ریلوے کی تحویل میں لینے کا حکم صادر کر دیا۔
’آئندہ اجلاس میں ایف آئی اے، نیب اور ریلوے حکام کو بلایا جائے گا اور کوشش ہو گی کہ اس اجلاس میں کمیٹی اپنا فیصلہ سنا دے۔‘ کمیٹی کے اجلاس سے پہلے ہی اب نیب اس معاملے پر کارروائی کا اعلان کر چکی ہے لیکن نیب کی جانب سے تقریباً 15 برس پرانے کیس کو اچانک دوبارہ کھولنے کی نوبت کیوں آئی؟ اس پر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ نیب کی جانب سے یہ توازن قائم کرنے کے حوالے سے ایک قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ’ احتساب تو سب کا ہونا چاہیے لیکن ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جرنیلوں اور ججوں کا احتساب نہیں ہوتا ہے، اور میرے خیال میں جب متعلقہ ادارے پر دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے تو توازن قائم کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔‘
↧