امریکی حکام گذشتہ ہفتے اس وقت جوش میں نظر آئے جب عدلیہ نے 2016 میں ہونے والے امریکا کے صدارتی انتخابات میں مبینہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے لیے روس کی مداخلت کی تحقیقات کے دوران کم سے کم ایک شخص پر فرد جرم عائد کی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سی این این سمیت امریکا کے دیگر میڈیا میں مذکورہ شخص کی شناخت اور ان پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں تاہم ایک شخص پر فرد جرم عائد کیے جانے کی تصدیق کی گئی ہے، یہ تحقیقات ایف بی آئی کے سابق چیف روبرٹ میلر کی سربراہی میں کی جا رہی تھیں۔
تاہم گذشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک مرتبہ پھر مذکورہ تحقیقات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’چڑیل کی تلاش‘ قرار دیا اور ساتھ ہی روس سے اپنے کسی بھی قسم کے اتحاد کی خبروں کو مسترد کیا۔ تاہم ملر کی ٹیم مذکورہ معاملے میں تاحال خاموش ہے جبکہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں پیر کو پہلی گرفتاری متوقع ہے۔ بعد ازاں اے بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے گورنر کرس کرسٹی کا کہنا تھا کہ ’سب سے اہم بات جو امریکیوں کو آج جاننے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ امریکی صدر زیر تفتیش نہیں ہیں اور نہ ہی کسی نے انہیں بتایا کہ وہ شامل کیے گئے ہیں‘۔
عام طور پر ایسے معاملات میں اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کیس بنانے کے لیے پہلے نچلے درجے کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیلیفورنیا کے ایک اور عہدیدار سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ زیر تفتیش ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اس حوالے سے جواب نہیں دے سکتے‘۔ تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ ممکنہ طور پر دو افراد کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ غیر ملکی لابنگ میں ملوث تھے جن میں سابق قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلین اورڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کے سابق ڈائریکٹر پاول مین فورٹ شامل ہیں۔