ملا اختر منصور 60 کی دہائی میں افغانستان کے صوبے قندہار میں پیدا ہوئے تھے
جس کی سرحد پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہے۔ان کی عمر 50 سال کے لگ بھگ، جبکہ ان کا تعلق افغانستان کے اسحاق زئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔
وہ ’افغان جہاد‘ کے دوران خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ میں جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے کے طالب علم بھی رہے۔
طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور نے سابق سویت یونین کے خلاف ایک مختصر عرصے تک جہاد میں حصہ لیا اور اس وقت وہ افغان جہادی پارٹی حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص) گروپ سے منسلک تھے۔
وہ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی سوویت یونین نواز حکومت کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔
90 کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان کا ظہور ہوا تو ملا اختر محمد منصور نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔وہ طالبان دور حکومت کے دوران سول ایوی ایشن کے وزیر اور کچھ عرصہ تک قندہار ہوائی اڈے کے انچارج بھی رہے۔
جب اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہو گئے اور ایک لمبے عرصے تک غائب رہے۔
جب طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور اس دوران وہ قندہار صوبے کے لیے طالبان کے ’شیڈو‘ گورنر کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔
جس کی سرحد پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہے۔