Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

Hopes of peace run high ahead of Korean summit

$
0
0
South Korean President Moon Jae-in (R) and North Korean leader Kim Jong-un (L) met at the Military Demarcation Line of the truce village of Panmunjom, South Korea. Kim Jong-un is the first North Korean leader to enter South Korea since the end of the Korean War in 1953.










ٹرمپ کا مسلمانوں پر سفری پابندی سے متعلق بیان پر معافی مانگنے سے انکار

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ مسلمانوں پر سفری پابندی عائد کرنے سے متعلق اپنے بیان پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نائیجریا کے صدر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے درمیان امریکی امیگریشن پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے کمزور، قابل رحم، اور متروک قرار دیا۔ انہوں نے اپنی صدارتی مہم 2016 کے دوران مسلمانوں پر سفری پابندی عائد کرنے کے نعرے پر معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں پر سفری پابندی سے متعلق بیان میں ایسا کچھ منفی نہیں جس پر معافی مانگی جائے۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ حکومت اپنے ملک کی حفاظت کے لیے مضبوط اور فول پروف امیگریشن نظام رکھتی ہے۔ میرے معافی مانگنے سے بھی کچھ نہیں ہو گا کیوں کہ امیگریشن سے متعلق قوانین اپنی جگہ موجود رہیں گے جسے مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دنیا ہماری پالیسی پر ہنستی ہے اور ہماری نرمی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگ امریکا میں داخل ہوتے ہیں اور امریکا کو ہی آنکھیں دکھاتے ہیں جیسے میکسیکو سے امریکا میں ہونے والی ہجرت ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امیگریشن کے حوالے سے اپنے سخت اور نفرت آمیز موقف کے باعث مقدمات کا سامنا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ امیگریشن قوانین سے متعلق ٹرمپ کے اس بیان کے بعد انہیں اپنے مقدمات میں مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
 

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹر پیغامات ان کے مشیر لکھتے ہیں

$
0
0

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ پیغامات کے پس پردہ شخصیت ان کے مشیر برائے سوشل میڈیا ڈین سکاوینو ہیں۔ اکیاون ملین سے زائد فالوئرز کے ساتھ ٹرمپ کا سرکاری ٹویٹر پیج عالمی ایجنڈے کا تعین کرتا ہے۔ ٹرمپ کے ٹویٹر پیج کی طرف سے بین کئے گئے بعض صارفین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کے اقدامات آئین کی خلاف ورزی ہیں یہاں تک کہ شئیر کئے گئے پیغامات کے خلاف دعوی تک دائر کروایا جاتا۔ ایسے دعووں میں جن افراد کے نام کا ذکر ہو رہا ہے ان میں سے ایک ٹرمپ کے مشیر برائے سوشل میڈیا ڈین سکاوینو ہیں۔ 

روزنامہ نیویارک ٹائمز نے وائٹ ہاوس کے حکام سے موصول معلومات کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ سکاوینو ایک محنتی اور ٹرمپ کے ساتھ حتمی وابستگی کا مظاہرہ کرنے والے شخص ہیں۔ سکاوینوکے ٹرمپ کے لکھے ٹویٹر پیغامات میں بھی مداخلت کرنے کا دعوی کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ تاحال یہ بات حتمی شکل میں معلوم نہیں ہے کہ یہ مداخلت کس حد تک ہے۔ اطلاع کے مطابق ٹرمپ سے قبل وائٹ ہاوس میں مشیر برائے سوشل میڈیا کا عہدہ موجود نہیں تھا اور ٹرمپ کی دور میں اس عہدے پر موجود سکاوینو اصل میں ٹرمپ کے پرانے دوست ہیں۔

 

اسرائیلی وزیر اعظم نیتان یاہو کو اعلانِ جنگ کا اختیار دے دیا گیا

$
0
0

اسرائیل کی پارلیمنٹ کنسٹ نے وزیر اعظم بنیامین نیتان یاہو کو، وزیر دفاع کی منظوری حاصل کرنے کے بعد، اعلانِ جنگ کرنے کا اختیار دینے سے متعلق قانونی بل کی منظوری دے دی ہے۔ روزنامہ ہیرٹز کی خبر کے مطابق وزیر اعظم کو، ہنگامی حالات میں وزیر دفاع کے ساتھ مشورہ کر کے اعلانِ جنگ کا اختیار سونپنے والا مذکورہ قانونی بِل دوسری اور تیسری رائے شماری میں قبول ہو کر آئین کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ خبر میں بِل کے خلاف ووٹ استعمال کرنے والے اسمبلی ممبران کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

مذکورہ آئین کی رُو سے نیتان یاہو کو اعلان جنگ کرنے کے لئے حکومت سے یا پھر کنسٹ کے سکیورٹی و سیاسی امور کے کمیشن سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ کنسٹ کی رائے شماری سے قبل نیتان یاہو نے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے ایران کے خفیہ جوہری اسلحے کی پیداوار کے پروگرام کے بارے میں دلائل تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
 

America Will Never Win the War in Afghanistan

$
0
0
According to an in-depth investigation conducted by BBC News reporters in late 2017, the Taliban fully control four percent of Afghanistan’s districts and “have an active and open physical presence” in 66 percent of the remaining ones. They found that roughly half of the Afghan people “are living in areas that are either controlled by the Taliban or where the Taliban are openly present and regularly mount attacks.” These findings should give pause to observers who believe that the United States is, or will presently be, poised to turn the tide in Afghanistan enduringly. There are currently fourteen thousand U.S. troops stationed there, up from 8,500 when President Trump took office, and the Army is recommending that the president authorize the deployment of an additional one thousand troops. For much of 2011, by comparison, there were nearly one hundred thousand U.S. troops in Afghanistan. While that earlier surge did reduce the Taliban’s control and extend that of the Afghan government, neither trend lasted. It is difficult to see how the present force would be able to accomplish what one nearly seven times as large could not; it would be unlikely to have more than marginal impact, and even then for only as long as the deployment was sustained.

The United States has now been at war in Afghanistan for over sixteen years, at a cost of over $1 trillion; Atlantic Senior Editor Krishnadev Calamur noted last month that the Taliban “now controls . . . more territory than at any point since the U.S.-led invasion”; and the United Nations Office on Drugs and Crime reported this past November that both the level of opium production and the area under opium poppy cultivation in Afghanistan reached record highs in 2017. Such realities invite a rigorous interrogation of the rationales for America’s continued involvement there. Steve Coll, dean of Columbia University’s Graduate School of Journalism and author of a new book on U.S. efforts to counter terrorism in South Asia, observes that policymakers have yet to answer essential questions, such as “Why is the United States in Afghanistan? What interests justify its sacrifices? How will the war end?” Instead, it would appear that the United States has accepted, or perhaps resigned itself to, a kind of circular logic, one whose power will only grow with time: the longer that U.S. forces remain in Afghanistan, the more self-evident it should be that the United States has vital national interests there.

If, as the top U.S. commander in Afghanistan concluded this past November, the conflict in Afghanistan “is still in a stalemate,” and the United States is unable and/or unwilling to specify the conditions under which its forces would begin to draw down, then it is effectively committing itself to staying there in perpetuity. Some observers contend that the United States would embolden the Taliban by announcing a timeline for withdrawal. Having fought U.S. troops for over sixteen years, though, the organization has proven itself to be frustratingly resilient and adaptable; so long as the United States has forces deployed there, the Taliban will likely be able to recruit a steady flow of fighters. Following a recent attack by the group that killed at least ninety-five people and injured 158 others, President Trump ruled out negotiations with its leadership. His sentiment is understandable. Unfortunately, though, concludes Laurel Miller, who served from June 2013 to June 2017 as the State Department’s deputy and then acting special representative for Afghanistan and Pakistan, America’s “only realistic exit strategy” is “a negotiated settlement.”

Ali Wyne

Source : The National Interest

اسرائیلی حکومت کے غزہ میں فلسطینیوں کو گولی مارنے کے خفیہ احکامات

$
0
0

اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں کو گولیاں مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج کو مشرقی غزہ میں جمع ہونے والے فلسطینی مظاہرین کو گولی مارنے کے خفیہ احکامات اعلیٰ سطح کی قیادت کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوج کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ ایک کیس کا جواب داخل کرایا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوج یہ تسلیم کر چکی ہے کہ اسے غزہ کی پٹی میں جمع ہونے والے مظاہرین کو گولیاں مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی سرحد پر تعینات فوجیوں کو کہا گیا ہے کہ وہ ممنوع علاقے میں داخل ہونے والے فلسطینی مظاہرین کو خطرہ قرار دے کر انہیں گولیاں ماریں۔ تاہم یہ احکامات خفیہ ہیں۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کو غزہ میں پرامن مظاہرین پر گولیاں چلانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ فلسطینی مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر پابندی عائد کرے اور پرامن شہریوں پر گولیاں چلانے کے احکامات کا نوٹس لے۔

گزشتہ برس ہتھیاروں، مسلح افواج پر 1730 کھرب ڈالر خرچ کیے گئے

$
0
0

گزشتہ برس دنیا بھر میں طرح طرح کے ہتھیاروں کے حصول اور مسلح افواج پر کل 1730 کھرب ڈالر خرچ کیے گئے، جو سرد جنگ کے بعد کے دور کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ سب سے زیادہ دفاعی بجٹ والے تین ممالک امریکا، چین اور سعودی عرب تھے۔ یہ اعداد و شمار سویڈن کے دارالحکومت میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سِپری نے اپنی اس تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں بتائے ہیں، جو سٹاک ہوم میں جاری کی گئی۔ 

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں اسلحے کی خریداری اور مختلف ممالک کی مسلح افواج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کا رجحان اتنا زیادہ ہے کہ 2017ء میں عالمی سطح پر دفاعی شعبے میں اتنی زیادہ رقوم خرچ کی گئیں، جتنی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔ سِپری کے مطابق گزشتہ برس عالمی سطح پر فوجی اخراجات کی مد میں 1.73 ٹریلین ڈالر یا 1.4 ٹریلین یورو سے زائد کی رقوم خرچ کی گئیں۔
1730 کھرب ڈالر کے ان مالی وسائل میں سے سب سے زیادہ رقوم امریکا نے خرچ کیں۔ امریکا کے بعد انہی رقوم کی مالیت کے حوالے سے چین دوسرے اور سعودی عرب تیسرے نمبر پر تھا۔ روس اس لسٹ میں چوتھے نمبر پر رہا۔

سٹاک ہوم کے اس بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں جتنے بھی مالی وسائل دفاع پر خرچ کیے گئے، ان کا ایک تہائی سے زائد حصہ اکیلے امریکا نے خرچ کیا، جو 610 ارب ڈالر بنتا ہے۔ اس کے علاوہ 2017ء میں عالمی دفاعی اخراجات کی مجموعی مالیت 2016ء کے مقابلے میں 1.1 فیصد زیادہ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقوم اتنی زیادہ تھیں کہ زمین پر کل انسانی آبادی کے لحاظ سے دفاع کے نام پر لیکن ہتھیاروں اور فوجوں پر جنگی مقاصد کے تحت فی انسان اوسطاﹰ 230 ڈالر خرچ کیے گئے۔

عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر رہنے والے ملک چین نے پچھلے برس اپنی مسلح افواج پر 228 ارب ڈالر خرچ کیے، جو اس سے ایک سال پہلے کے چینی فوجی بجٹ کے مقابلے میں 12 ارب ڈالر زیادہ تھے۔ 2017ء کی اس فہرست میں جرمنی اپنے عسکری اخراجات کے لحاظ سے نویں نمبر پر رہا، جس نے دفاعی شعبے میں کل 44.3 بلین ڈالر یا قریب 37 بلین یورو خرچ کیے۔ انہی اعداد و شمار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ چین 2008ء سے اب تک اپنے دفاعی بجٹ کو دگنا کر چکا ہے اور پچھلے برس بیجنگ کا فوجی بجٹ عالمی دفاعی اخراجات کے 13 فیصد کے برابر تھا۔

دنیا کی طاقتور عسکری قوتیں
1۔امریکا
دفاعی بجٹ: 647 بلین ڈالرز، مجموعی فوجی تعداد: 2,083,100، مجموعی طیارے : 13,362 ، ٹینک: 5,884، بکتر بند گاڑیاں: 38,822 ، مجموعی بحری اثاثے: 415 ، ایئرکرافٹ کیریئر: 20 ، آبدوزیں: 66 ، پاور انڈیکس: 0.0818

سعودی عرب نے گزشتہ برس اپنے دفاع کے لیے 69.4 ارب ڈالر خرچ کیے اور اسی وجہ سے وہ اس عالمی فہرست میں روس کو ہٹا کر تیسرے نمبر پر آ گیا۔ سعودی عرب نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 10 فیصد دفاع پر خرچ کیا ۔  اسرائیل کو تین آبدوزوں کی فروخت، جرمن حکومت نے منظوری دے دی جنوبی ایشیا میں آبادی کے حوالے سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت نے پچھلے سال دفاعی شعبے میں قریب 64 ارب ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقوم اتنی زیادہ تھیں کہ اس وجہ سے بھارت فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے عسکری بجٹ کی رو سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا۔

بشکریہ DW اردو

 

Facebook's F8 Developer Conference

$
0
0
Facebook F8 (pronounced "eff eight") is a mostly-annual conference held by Facebook, intended for developers and entrepreneurs who build products and services around the website. It is hosted in the San Francisco Bay Area, California, previously in San Francisco (until 2016) and now in San Jose, in Silicon Valley. Previous events have started with a keynote speech by Facebook founder Mark Zuckerberg, followed by various breakout sessions concentrating on specific topics. Facebook has often introduced new features, and made new announcements, at the conference. The "F8" name comes from Facebook's tradition of 8 hour hackathons. The scheduling of F8 has been somewhat erratic. No conferences were held in 2009, 2012 or 2013, and the date for the 2011 conference was announced late in the year.










نسل پرستی کیا ہے؟

$
0
0

نسل پرستی، ایک نظریہ ہے جس میں سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسانی نسل جینیاتی یا موروثی طور پر ممتاز یا کمتر ہے۔ نسل پرستی کسی ایک انسانی نسل کی کسی دوسری نسل یا انسانی گروہ پر فوقیت یا احساس برتری کو کہا جاتا ہے۔ نسل پرستی نسلی امتیار کو پیدا کرتی ہے۔ نسل پرستی چند افراد کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر کسی سماج یا ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر نسل پرستی ہو تو کسی ایک نسلی گروہ یا آبادی کا دوسری نسل انسانی کے گروہ پر نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے۔ 

ماضی میں اس کی مثال امریکا اور جنوبی افریقہ ہیں۔ وہاں سیاہ فاموں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔ ان کے لیے علیحدہ عبادت گاہیں اور سکول وغیرہ تھے۔ امریکا میں دوران سفر اگر کوئی سفید فام بس میں سوار ہوتا تو سیاہ فام کے لیے لازم تھا کہ وہ اس کے لیے نشست خالی کرے۔ نسلی امتیاز کی وجہ سے جنوبی افریقہ اور امریکا میں سیاہ فام آبادی سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر ہونے والا امتیاز انسانی حقوق کی نفی ہے۔ نسل پرستی اور گروہی امتیاز دونوں مجموعی طور پر معاشرتی مسائل ہیں اور ان کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ انسان جینیاتی لحاظ سے مختلف نسلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ 

مثلاً سیاہ فام اور منگول نسل۔ ان کی ظاہری شکل و صورت اور جسمانی ساخت میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر سیاہ فاموں کے بال گھنگریالے جبکہ منگولوں کے سیدھے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اسی ظاہری فرق کو ہی امتیاز اور نفرت کی بنیاد بنا لیا جاتا تھا۔ لیکن اس امتیاز سے مفادات بھی وابستہ رہے۔ امریکا میں جب سیاہ فام غلاموں کو افریقہ سے پکڑ کر لایا جاتا تو ان سے کم و بیش جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ کھیتوں میں ان سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ ایسے سلوک کے جواز کے لیے کسی ’’نظریے‘‘ کی ضرورت تھی اور یہ ’’نظریہ‘‘ نسل پرستی سے اخذ ہوتا تھا۔ سفید فام یہ سمجھتے تھے کہ وہ اعلیٰ اور افضل ہیں جبکہ سیاہ فام پوری طرح انسان نہیں اس لیے انہیں آقا بننے کا پورا حق حاصل ہے۔ بعض اوقات سائنسدان ، سماجی ماہرین اور تاریخ دانوں نے ایسے نظریات کو بڑھاوا دیا جو نسل پرستی کی تائید کرتے تھے کیونکہ ان کا تعلق غالب نسلی گروہ سے تھا۔

معروف آزاد


 

بحیرہ جنوبی چین میں چینی میزائل تنصیب، امریکا کے لیے پریشانی کا باعث

$
0
0

امریکا نے چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین میں عسکری اقدامات کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں ان اقدامات کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی نے براہِ راست امریکی حساس ادارے کے ذرائع سے رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ چین نے بحیرہ جنوبی چین میں بحری جہاز شکن کروز میزائیلوں اور سطح زمین سے ہوا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم نصب کیا ہے جبکہ اس کے ساتھ 3 چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے معمول کے مطابق میڈیا کو دی جانے والی بریفنگ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان سارا سینڈر نے مذکورہ ٹی وی کی رپورٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی جانب سے کیے گئے عسکری اقدامات سے پوری طرح واقف ہیں، اور اس سلسلے میں ہم نے چینی حکام کو اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کر دیا۔

اس ضمن میں ایک امریکی عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ماہ امریکی حساس ادارے نے چین کی جانب سے متنازع جزیروں کے علاقے اسپریٹلی آئی لینڈ میں قائم مصنوعی جزیرے پر ہتھیاروں کا نظام منتقل کرنے کا اقدام دیکھا تھا، تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ نشریاتی ادارے نے نامعلوم ذرائع کے توسط سے بتایا کہ امریکی حساس اداروں کے مطابق میزائل گزشتہ 30 دنوں کے دوران اسپریٹلی آئی لینڈ کے علاقے میں منتقل کیے گئے ہیں، اگر ان دعوؤں کی تصدیق ہو جاتی تو یہ چین کی جانب سے اسپریٹلی آئی لینڈ میں نصب پہلا میزائل سسٹم ہو گا۔ چین کے وزیر دفاع نے اس معاملے پر کسی بھی قسم کا موقف دینے سے انکار کیا، البتہ چینی وزارتِ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کی اسپریٹلی آئی لینڈ پر مکمل خود مختاری ہے اور اس تناظر میں ضروری دفاعی آلات کی تنصیب کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہواچنینگ کا مزید کہنا تھا کہ جو ممالک اشتعال انگیزی کے قائل نہیں، اُنہیں اس اقدام سے خوفزدہ ہونے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

امریکا کا اتحادی
اس سلسلے میں امریکا کے دیرینہ اتحادی ملک فلپائن جو چین کے ساتھ مضبوط تعلقات کا بھی خواہاں ہے، کی جانب سے حالیہ تنصیب پر محتاط ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ فلپینی صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کے ترجمان ہیری روق نے بیان دیا کہ حالیہ دنوں میں چین کے مستحکم ہوتے تعلقات کے پیشِ نظر ہمیں یقین ہے کہ نصب کیے گئے میزائل ہماری طرف نہیں آئیں گے، اور اگر ایسا کچھ ہونے والا ہوگا تو ہم اپنے تمام تر سفارتی تعلقات اس مسئلے کے حل کے لیے استعمال کریں گے۔ گزشتہ ماہ امریکی پیسفک کمانڈ کے ایڈمرل مقرر ہونے والے فلپ ڈیوڈسن نے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین بحیرہ جنوبی چین میں فوجی اڈوں کی مدد سے مذکورہ علاقے کے دیگر دعویداروں کی موجودگی کو چیلنج کر سکتا ہے، اور یہاں سے کسی بھی ملک کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 

شمالی کوریا نے اپنا وقت جنوبی کوریا سے ملا لیا

$
0
0

شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے تعلقات میں بہتری کے بعد اپنا وقت تبدیل کر لیا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے تعلقات میں بہتری کے بعد اپنا وقت تبدیل کر لیا۔ وقت تبدیلی کا فیصلہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں کیا گیا۔ شمالی کوریا نے اپنی گھڑیاں آدھا گھنٹہ آگے کر لی ہیں جب کہ اب تک شمالی کوریا، جاپان اورجنوبی کوریا سے آدھا گھنٹہ پیچھے چل رہا تھا۔
شمالی کوریا کی جانب سے گھڑیاں آگے کرنے کا مقصد دونوں ممالک میں فاصلوں کو کم کرنے سمیت اچھے تعلقات کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے ملاقات کا مقام اور تاریخ طے کر لی ہے، جس کا جلد اعلان کر دیا جائے گا.
 

بش پر جوتا اچھالنے والا صحافی عراقی پارلیمنٹ کا امیدوار

$
0
0

سال 2008ء میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا پھینکنے والے عراقی صحافی منتظر الزیدی نے عراقی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ العربیہ ٹی وی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے الزیدی نے امریکی صدر پر جوتا اچھالنے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ "وہ دنیا کے لوگوں اور صدر بش کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ عراقی عوام اس امریکی تسلط کو قبول نہیں کرتے ہیں اور وہ غدار نہیں ہیں۔" چالیس سالہ منتظر نے مقتدیٰ الصدر کے حمایت یافتہ امیدواران کی لسٹ میں اپنا نام شامل ہونے پر کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ لسٹ عراق کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرتی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اس لسٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

سوال: آپ کے نزدیک 14 دسمبر کی تاریخ کی کیا اہمیت ہے؟
منتظر الزیدی: یہ تاریخ ظالم طاقتوں کی جانب سے ایک ملک پر قبضے اور اس کی انتظامیہ اور ذخائر پر شب خون مارنے کے خلاف مظلوم عوام کی للکار کی نشانی ہے۔

سوال: اگر موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بغداد آئے تو کیا ان کے ساتھ بھی آپ جارج بش والا رویہ ہی رکھیں گے؟
منتظر: صدر بش کے خلاف میرا عمل اس بات کا عکاس تھا کہ عراقی عوام نے امریکی اور اتحادی افواج کا پھولوں سے استقبال نہیں کیا تھا۔ سابق امریکی صدر کا یہ بیان اس دقیانوسی ذہنیت کا مظہر ہے کہ عراقی عوام اپنی زمین کے غدار ہیں اور انہوں نے قابض افواج کا استقبال کیا تھا۔

سوال: کیا آپ کے نام کی شمولیت سے مقتدیٰ الصدر کی لسٹ میں شامل کسی خاص سیاسی جماعت کو پریشانی ہے؟
منتظر: میری جانب سے اپنے آپ کو بطور امیدوار پیش کرنے کا مقصد ان لوگوں کی آواز بننا ہے جو کہ گذشتہ 15 برسوں کے دوران سیاسی قوتوں کے ہاتھوں دھوکا کھاتے آئے ہیں۔ میں ایک شہری حکومت کا حامی ہوں اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہا ہوں۔ میں نے اس لسٹ کا انتخاب اسی لئے کیا ہے کیوںکہ یہ مجھے میرے نظریات اور خیالات کے قریب نظر آئی ہے۔ ایک چیز جس پر مجھے کافی فخر ہے وہ یہی ہے جب میں نے عوام سے اپنی الیکشن مہم کے لئے رضاکاروں اور ڈونرز کے لئے اپیل کی تو فوری طور پر درجنوں لوگوں نے میرے ساتھ رابطہ کیا۔

سوال: اگر آپ کو اگلی حکومت کے دوران کسی حکومت کی آفر کی جاتی ہے تو آپ کونسی وزارت کا انتخاب کریں گے؟
منتظر: فی الوقت میرا کسی وزارت سنبھالنے کا ارادہ نہیں ہے اور میں صرف پارلیمان میں بطور رکن قانون سازی کا کام سر انجام دوں گا۔ اگر مجھے موقع ملا تو میں وزارت انسانی حقوق کا قلم دان سنبھالنا پسند کروں گا۔
 

ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکی شہریوں کی جاسوسی میں اضافہ

$
0
0

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق رواں سال امریکی حکام نے شہریوں کی جاسوسی میں کمی کی بجائے اضافہ کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کے پہلے سال امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے 53 کروڑ سے زائد افراد کے فون ریکارڈ حاصل کیے۔ 2016ء کے مقابلے میں نجی کال ریکارڈ کرنے میں تقریباً 4 گنا اضافہ ہوا۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق 2016 میں ایجنسی کی جانب سے 15 کروڑ 10 لاکھ امریکیوں کا فون ریکارڈ حاصل کیا گیا تھا جبکہ 2017 میں 53 کروڑ فون کالز ریکارڈ کی گئیں تاہم رپورٹ میں فون ریکارڈ میں اضافے کی وجوہات بیان نہیں کی گئی ہیں۔ 2015ء میں کانگریس نے فون ریکارڈ تک رسائی محدود کرنے کا قانون پاس کیا تھا۔ واضح رہے امریکا میں آزادی اظہار رائے اور شہریوں کی پرائیویسی سے متعلق سخت قوانین موجود ہیں تاہم قانون ساز ادارے کانگریس نے شہریوں کے کال ریکارڈ کرنے کی محدود اجازت دی تھی۔
 

ماریشس کی سیر

$
0
0

ماریشس (موریطانیہ) بحر ہند کے انتہائی جنوب میں ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ پوری دنیا کے سیاح یہاں سیر کرنے اور چھٹیاں انجوائے کرنے کے لیے آتے ہیں سیاحت ماریشس کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بن چکا ہے۔ اس ملک کی بیشتر آبادی ماریشس اور راڈرک جزیروں میں آباد ہے جو صرف 13 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے جزیرہ راڈرک کی آبادی کا تناسب صرف ڈھائی فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی چھوٹے چھوٹے بے آباد جزیرے ہیں جہاں سیاح موٹر بوٹس کے ذریعے سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ شاید ان جزیروں میں کچھ ماہی گیر خاندان آباد ہوں جن کا وہاں جانے پر ہی پتہ چل سکتا ہے۔ 

اگر آپ ماریشس میں صرف سیاحتی نقطہ نظر سے آئے ہیں تو آپ کے مالی وسائل بہت مضبوط ہونے چاہئیں۔ یہاں کاروبار لگے بندھے اصولوں پر چلتا ہے۔ صبح نو بجے سے شامل پانچ بجے تک سرکاری و غیر سرکاری تمام ادارے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ پانچ بجے کے بعد تقریباً تمام کاروباری ادارے بند ہو جاتے ہیں۔ شاید چند بڑی سپر مارکیٹیں سات سے آٹھ بجے تک کھلتی ہیں۔ ملک میں ٹرانسپورٹ کا بہت خوبصورت نظام ہے۔ ملک کے تمام حصوں میں تمام شہروں کے بس اڈوں سے مسافروں کے لیے گاڑیاں چلتی ہیں مگر تمام ماریشس میں شام سات بجے کے بعد بسیں چلنا بند ہو جاتی ہیں۔ 

ایسے میں اگر آپ کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے تو پھر مزے ہیں۔ اگر ذاتی گاڑی نہیں تو پھر ٹیکسیوں کا مہنگا ترین سفر اپنانا ہو گا۔ پورے ملک میں مضبوط ٹرانسپورٹ نظام کے تحت تمام شہروں اور علاقوں میں بس سٹاپ نظر آئیں گے اور آپ کو بس میں سفر کے لیے ہر صورت اس بس سٹاپ پر ٹھہرنا ہو گا۔ آپ راستے میں بس روک کر سوار نہیں ہو سکتے۔ پورے ملک میں گنے کی بھر پور فصل نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ آپ کو اکثر گھروں میں ناریل، لیچی، آم اور پپیتا کا درخت نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر آم کے پیڑ اور پپیتے کے درخت بہتات میں نظر آئیں گے۔ 

پھلوں کا بادشاہ کہلانے والا پھل آم ماریشس میں بے قدری کا شکار ہے۔ یہ یہاں زیادہ نہیں کھایا جاتا بلکہ سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائروں تلے بے دردی سے کچلا جاتا ہے۔ اور تقریباً یہی حال پپیتے کا ہے۔ یہ بھی مرغوب پھل نہیں۔ لیچی اور ناریل کے پھل یہاں بہت مرغوب ہیں۔ ناریل کا پانی بہت پیا جاتا ہے۔ ماریشس کی زمین اس قدر زرخیز ہے کہ آپ یہاں فصل کاشت کر سکتے ہیں سوائے دھان کے ۔ عجیب بات ہے کہ چاول جو یہاں کے باشندوں کی بنیادی غذا ہے تمام باہر کے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں نے اب سبزی ترکاری بھی اگانی شروع کر دی ہے۔ پیاز، آلو، ٹماٹر، چقندر، گوبھی، کریلا، بھنڈی، کدو، کھیرے، پالک، بینگن، اروی اور بہت سی ایسی سبزیاں مقامی طور پر اگائی جا رہی ہیں۔

لیکن بہت سی زمین قابل کاشت پڑی ہے۔ پہاڑوں میں آپ کو بندراور ہرن بھی نظر آئیں گے۔ ماریشس کے بڑے شہر قابل دید شہر ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے طول عرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، قصبے اور بیچز قابل دید نظارے پیش کرتی ہیں، جہاں سفر کرتے ہوئے آپ خود کو بہت ہی ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور قدرت کی اس صناعی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ سب نظارے ایسے ہیں کہ بار بار دیکھنے پر بھی آپ کا جی نہیں بھرتا۔

اختر ہاشمی


 

Journalists in the line of fire

$
0
0

The number of journalists killed this year has soared to 44 in 18 countries during the first four months of 2018, up from 28 in the same period last year, the Geneva-based Press Emblem Campaign (PEC) said Wednesday. PEC said it “deplored the dramatic increase in media victims as the world celebrates World Press Freedom Day tomorrow, Thursday 3 May 2018,” adding the number of journalists killed from January to April has soared by 57 percent from the same period last year. The PEC is appalled by the death of 9 journalists in two explosions in the Afghan capital Kabul on April 30 and strongly condemned “this heinous terrorist attack targeting journalists among the crowd.” An attacker, disguised as a cameraman, detonated explosives at the site of the initial explosion.


The most dangerous countries since the beginning of this year are Afghanistan with 11 killed, Mexico (4), Syria (4), Ecuador (3), India 3, Yemen (3), and two killed in each of the following countries: Brazil, Gaza (Israel), Guatemala and Pakistan. One journalist was killed in the following countries: Colombia, Haiti, Iraq, Liberia, Nicaragua, Russia, Salvador and Slovakia. “Following the assassination of Daphne Caruana Galizia in Malta and Jan Kuciak in Slovakia, PEC Secretary-General Blaise Lempen calls upon states to take additional measures for protecting journalists by running independent investigations, coupled with follow-ups to reach the perpetrators and to bring them to justice at all levels.”










فوج کو سیاسی تنازعات سے بچائیں

$
0
0

خلائی مخلوق کا میاں نواز شریف نے کیا نام لیا کہ جس جس کو موقع مل رہا ہے وہ اپنی بھڑاس نکال رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے تو میاں صاحب کو یاد دلایا کہ خلائی مخلوق کے ہی زور پر تو ماضی میں اُن کی سیاست چمکتی رہی۔یہ تمام باتیں اشارتاً ایک ہی ادارہ کی طرف مرکوز تھیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی عادت کے مطابق نہ سوچا نہ سمجھا اور سیدھا سیدھا فوج کا نام لے کر اُسے 2013 کے انتخابات میں پنجاب میں ن لیگ کو جتوانے کے لیے دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے تمام الزامات اگرچہ غلط ثابت ہو چکے لیکن خان صاحب کے ذہن سے یہ بات نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب نے مل کر اُنہیں ہرایا اور نواز شریف کو جتوایا۔ 

ماضی میں وہ بنیادی طور پرسپریم کورٹ سمیت ججوں، الیکشن کمیشن، جنگ گروپ سمیت جس کو دل چاہا یا جو اُن کے سامنے آیا اُس پر دھاندلی کی سازش  میں شامل ہونے کا الزام لگا دیا۔ اب انہیں فوج بھی یاد آگئی کہ وہ بھی ن لیگ کو جتوانے کے لیے ووٹوں پر ٹھپے لگانے میں شامل تھی۔ نہ ماضی میں خان صاحب کے پاس ایسے الزامات کا ثبوت تھا اور نہ ہی اب اُن کے پاس کچھ ثابت کرنے کے لیے موجود ہے۔ دنیا جانتی ہے اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن نے یہ ثابت بھی کیا کہ کوئی منظم دھاندلی گزشتہ الیکشن میں نہیں ہوئی۔ کچھ بھی کر لیں عمران خان نے تو بغیر تصدیق کے بات وہی کرنی ہے جو اُن کے کان میں کوئی کھسر پھسر کر دے ورنہ یہ حقیقت ہے اور اسے جوڈیشل کمیشن نے ثابت بھی کیا کہ 2013 کے انتخابات کے پیچھے نہ تو فوج، نہ عدلیہ، نہ جنگ گروپ اور نہ ہی کسی دوسرے کی کوئی سازش شامل تھی بلکہ عمومی طور پر گزشتہ انتخابات ماضی کے مقابلہ میں کافی بہتر پائے گئے۔

ڈر ہے کہ آئندہ الیکشن بھی اگر خان صاحب ہار گئے تو نجانے کس کس پر بغیر ثبوت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیں گے۔ خان صاحب نے جیو کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویو میں موجودہ آرمی چیف پر اپنا مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اُنہیں سب سے بہتر قرار دیا۔ آرمی چیف کے متعلق کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار آصف علی زرداری نے بھی کیا۔ ویسے ہمارے ہاں ایک رواج چلا آ رہا ہے کہ ہم ہر آرمی چیف کو اُس کے عہدے کے دوران بہترین قرار دیتے ہیں اور جیسے ہی وہ ریٹائر ہو جاتا ہے تو جانے والے میں خامیاں تلاش کرنے لگتے ہیں اور نئے آرمی چیف کے متعلق کہنے لگتے ہیں کہ ان جیسا تو کبھی کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ 

اگر کسی نے چاپلوسی کے اس رنگ کو دیکھنا ہے تو آٹھ دس سال کے پرانے اخبارات نکال لیں اور اپنے بڑے بڑے سیاستدانوں کے بیانات پڑھ لیں سب کھل کر سامنے آ جائے گا۔ 2008 اور پھر 2013 کے انتخابات جب ہوئے تو دونوں موقعوں پر آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز کیانی تھے۔ سب کو معلوم ہے کہ جنرل مشرف 2008 کے انتخابات میں ق لیگ کو جتوانا چاہتے تھے اور اس کے لیے فوج کو بھی استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل کیانی نے فوج کو غیر سیاسی بھی کیا    اور انتخابی عمل میں مداخلت سے بھی روکا۔ 2013 کے انتخابات کے دوران بھی جنرل کیانی کی قیادت میں فوج نے صرف سیکورٹی کا وہی کردار ادا کیا جو اُسے سونپا گیا تھا۔

مشرف نے فوج کو جن تنازعات میں اپنے مارشل لاء کے دوران اور اپنے سیاسی مفادات کے لیے دھکیلا اُن حالات سے اس قومی ادارہ کو نکالنے میں جنرل کیانی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جنرل کیانی ایک بہترین آرمی چیف رہے اگرچہ میںفوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ہوں۔ تاریخی طور پر فوج کا ہماری سیاست میں اہم کردار رہا اور اسی کردار کی وجہ سے فوج کے متعلق تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ خلائی مخلوق کا موجودہ تنازع بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ لوگ بلواسطہ یا بلاواسطہ فوج کا بحیثیت ادارہ نام لیتے ہیں لیکن چاہے خلائی مخلوق کہیں یا کچھ اور ہمارا ماضی گواہ ہے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت یا سول حکومتوں سے ٹکرائو کا معاملہ ہمیشہ صرف چند افراد تک محدود ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر جنرل مشرف نے جب مارشل لگایا تو صرف چند ایک جرنیل اس سازش میں شامل تھے۔ اسی طرح 2014 کے دھرنے کی مبینہ سازش کا جو معاملہ ہے تو اُس کا بھی تعلق فوج سے نہیں بلکہ فوج سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سے تھا جنہوں نے اپنے عہدہ اور ادارہ کی حیثیت کو اپنے ذاتی مفادات اور لڑائیوں کے لیے استعمال کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف خلائی مخلوق اور اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو احتیاط کرنی چاہیے کہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے اداروں اور افراد کے درمیان فرق ختم ہو جائے اور دوسری طرف فوج کی قیادت کو ملک ، قوم اور فوج کے اپنے وسیع تر مفاد میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دفاعی اداروں سے تعلق رکھنے والے کسی فرد یا افراد کو فوج کے ادارہ کو اپنے ذاتی مفادات اور پسند و ناپسند کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ ایسا کرنا فوج کو بلاوجہ کے تنازعات سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔

انصار عباسی
 

سعودی عرب میں ملازمتوں کو لاحق خطرات، غیر ملکی ملازمین واپسی پر مجبور

$
0
0

سعودی عرب میں ملازمت کے حوالے سے مسائل پیدا ہونے کے پیشِ نظر تارکینِ وطن نے اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ کر اور اپنی خدمات کے اختتام پر ملنے والے تمام مالی فوائد وصول کر کے اپنے آبائی ملک جانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق ان غیر ملکی ملازمین کا کہنا تھا کہ اس وقت انہیں اپنی ملازمتوں کے حوالے سے اتنے خطرات نہیں لیکن پھر بھی ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنی جمع پونجی کو بچانا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں نجی شعبوں میں کام کرنے والے غیر ملکی ملازمین کو ان کی مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر خدمات کے صلے کے سلسلے میں اسے ایک اچھی رقم دے دی جاتی ہے۔

سعودی عرب میں کام کرنے والے ایک غیر ملکی کا کہنا تھا کہ ان کی آمدن ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہے اور یہ مستقبل میں مزید خراب ہو سکتی ہے، ’اسی لیے اپنا مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہوں‘۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک سعودی عرب سے گزشتہ 18 ماہ کے دوران 8 لاکھ 11 ہزار سے زائد غیر ملکی ملازمین اپنے اپنے ممالک یا پھر کسی دوسرے ملک روانہ ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 1500 سے زائد ملازمین سعودی عرب چھوڑ کر جارہے ہیں، تاہم 19 لاکھ کی جانب سے اقامے کی دوبارہ تجدید کے لیے درخواستیں دائر کی گئیں۔

اس کے علاوہ صرف سال 2018 کے دوران ہی 2 لاکھ 70 ہزار ملازمین سعودی عرب کو چھوڑ کر اپنے آبائی وطن یا پھر کسی دورے ملک میں ملازمت کی اختیار کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس نومبر میں قانون کی خلاف وزریاں کرنے والے افراد کے خلاف مہم کے آغاز کے بعد سے 9 لاکھ 28 ہزار سے زائد غیر ملکیوں کو رہائشی، ملازمتوں اور سرحدی قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق 12 ہزار 7 سو 82 گرفتار افراد، جن میں 10 ہزار 7 سو 68 مرد جبکہ 2 ہزار 14 خواتین شامل ہیں، اب بھی قید ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں تقریباً 4 لاکھ 66 ہزار غیر ملکی سعودی عرب چھوڑ کر چلے گئے جبکہ اسی عرصے میں ایک لاکھ سعودی باشندوں کو مقامی اداروں میں ملازمتیں بھی دی گئیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام پر 31 لاکھ 60 ہزار سعودی باشندے سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمتیں کر رہے تھے جبکہ ایک کروڑ 4 لاکھ 20 ہزار غیر ملکی انہی شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ سعودی ویب سائٹ کے مطابق مقامی باشندوں کی 53.3 فیصد آبادی ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ملک کی مختلف جامعات سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
 

قابلِ رحم حالت سے گزرتی پاکستانی سیاست

$
0
0

اگلے عام انتخابات کے لیے 3 قومی آپشن موجود ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ان میں سے 2 کی قیادت وہ 'رہنما'کر رہے ہیں جنہیں بالترتیب پاکستان کا دوسرا اور چوتھا امیر ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ اپنی بیرونِ ملک موجود پوشیدہ دولت کے ساتھ یہ دونوں ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔ تیسرے آپشن کا نمائندہ وہ رہنما ہے جو امیر ترین ہونے کے قریب بھی نہیں۔ یہ قابلِ قبول نہیں ہے کہ ملک کا دوسرا اور چوتھا امیر ترین شخص اس ملک کی قیادت کریں جس کے عوام کو غریب اور جاہل رکھ کر ان سے منافع کمایا گیا ہے۔ ان کی زبردست ذاتی دولت اعلیٰ ترین عوامی عہدوں پر رہتے ہوئے بنی۔

ان تینوں کے علاوہ 3 دیگر ووٹنگ آپشن بھی ہیں: ووٹ نہ ڈالیں؛ صرف مستحق آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں یا 'ان میں سے کوئی بھی نہیں'پر نشان لگائیں۔ یہ ووٹنگ آپشن ضرور ہونا چاہیے۔ اس پر نشان لگانے والے ایک واضح سیاسی مؤقف کا اظہار کریں گے کہ وہ کسی کو بھی اپنے ووٹ کا حقدار نہیں سمجھتے۔
پاکستان میں چل رہے سیاسی ڈرامے میں فی الوقت کوئی بھی اچھا نہیں ہے، سوائے ظلم و ستم کے شکار عوام کے۔ ہیروز کی بات کی جائے تو ان کی اتنی قلت ہے کہ انہیں بنانا پڑتا ہے۔ نایاب، اصلی ہیروز وہ موتی ہیں جو لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، امید فراہم کرتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کا چہرہ ہوتے ہیں۔ انہیں شدید اور مسلسل نفرت اور بدکلامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس میں حیرت کی بات نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ، سیاست اور ریاست کی طاقتوں کو معلوم نہیں کہ بالکل گراس روٹ سطح سے اٹھنے والی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جیسی ایک حقیقی تحریک کے ساتھ کیا کیا جائے۔ بلوچستان سنڈروم (عزت اور انصاف کے لیے جدوجہد) اب خیبر پختونخوا اور فاٹا تک آپہنچی ہے اور ممکنہ طور پر یہ پورے پاکستان تک پھیلے گی۔ یہ دولتِ اسلامیہ سنڈروم کو حتمی جواب ہو گا۔ پاکستانی سیاست قابلِ رحم حالت سے گزر رہی ہے جس میں صرف مشکوک اور بدنام سیاستدانوں کی بیان بازیاں ہیں؛ مسائل پر معقول اور دیانت دار بحث کے بجائے الزامات اور گالیاں دی جاتی ہیں؛ پارلیمنٹ غیر فعال ہے؛ طاقت کے مراکز سے چمٹا رہا جاتا ہے؛ تفریقی، انتہاپسند اور خصوصی مفادات کی پالیسیوں کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے؛ جہالت کو علم قرار دیا جاتا ہے؛ ناقابلِ فہم کرپشن اور دھوکہ دہی موجود ہے؛ الیکشن صرف مشکلات کے شکار لوگوں کے لیے تفریح ہیں؛ گمشدگیاں، تشدد اور لاشیں؛ جھوٹ، بدترین جھوٹ اور اعداد و شمار؛ اور اشرافیہ کے دلوں میں خوف کہ کہیں عام پاکستانی اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوں۔

وہ لوگ جن پر تحفظ کی ذمہ داری ہے، وہ بچوں، عورتوں اور اقلیتوں کو غیرت اور مذہب کے نام پر قتل کرنے والوں، انتہا پسندوں اور ریپ کرنے والوں سے بچانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ نہ ہی انہوں نے امداد دینے والے ممالک کے ملکی خود مختاری کے خلاف مطالبوں سے پاکستان کے خود مختار مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ اس دوران میڈیا کو بھی اپنی اوقات میں رہنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ ان بنیادوں پر جمہوریت قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ کوشش ہی مشکوک ہو گی۔ اشاروں یا اشاروں کے بغیر دہشتگرد فیصلہ کرتے ہیں کہ کون بحفاظت مہم چلا سکتا ہے اور کون نہیں۔ 2013ء میں جو آپشن ہمیں دستیاب تھے، آج بھی تقریباً وہی ہیں۔ مگر حالات بدل چکے ہیں اور ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی ہوں گی۔

مگر سب سے بہترین آپشن اب بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ یعنی وہ بنیادی سطح کی تحریکیں جو پاکستان کے غریبوں، استحصال کی شکار اور محروم اکثریت کی ترجیحات کو فروغ دینے کی تحریکیں ہیں۔ دعوؤں کے باوجود یہ بات یقینی نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت خود کو ایسی تحریک کی معتبر نمائندہ قرار دے سکتی ہے۔ پی ٹی ایم ابھی تک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اشرافیہ کی ترجیحات مسلط کرنے کے لیے اشرافیہ کی مداخلت نے ملک کی سیاسی اور اقتصادی ترقی کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ اس طرح کی مداخلتوں نے جمہوری فقدان بڑھایا ہے، احساسِ عدم تحفظ کو مزید گہرا کیا ہے اور ملک کو بے فائدہ کاموں میں الجھا دیا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے۔ کچھ قیمتی لوگوں کے علاوہ ہمارے زیادہ تر چیمپیئنز اس حقیقت کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں۔

نسبتاً ایماندار غیر ارب پتی رہنما کے پاس بظاہر انتخابات جیتنے کا سب سے بہترین موقع ہے بھلے ہی ان کی مقبولیت میں مبینہ طور پر کمی آ رہی ہے، خاص طور پر پڑھی لکھی نوجوان مڈل کلاس میں۔ جیت سے اس لیڈر کو نئے امکانات کے دروازے کھولنے کا موقع ملے گا۔ یہ آسان کام نہیں ہو گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر بے چہرہ 'فیصلہ سازوں'کا اثر ہے۔ یہ فیصلہ ساز انہیں اسکرپٹ سے ہٹنے نہیں دیں گے۔ وہ انہیں دور نکل جانے سے روکنے کے لیے اتحاد اور دیگر حکمتِ عملیاں استعمال کریں گے۔

اس سے جلد یا بدیر وہ توقعات ٹوٹیں گی جو لوگ ان سے وابستہ کر بیٹھے ہیں۔ اس دوران 2050ء اپنی تمام تر مشکلات کے ساتھ ہمارے سر پر آ کھڑا ہو گا اور ہمارے پاس وہاں تک ٹھیک حالت میں پہنچنے کے لیے کوئی قومی توانائی بھی نہیں ہو گی۔ اگر ایسی سیاست ہو تو آپ کو دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ان حالات میں 'جمہوریت'کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ جمہوریت کے حامیوں کے درمیان راستے اور مقصد کے بارے میں اختلافات موجود ہیں۔ جمہوریت کا مقصد راستے پر منحصر ہے مگر یہ خود ایک راستہ نہیں ہے۔ جمہوریت ایک سیاسی حالت ہے جبکہ اس تک پہنچنے کا راستہ ایک سیاسی تحریک ہے۔ جمہوریت اچھی حکمرانی اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے والے سیاسی مرحلوں سے حاصل ہوتی ہے۔

اس طرح کی تحریکوں کے بغیر جمہوریت کی کوششیں اور انتخابات صرف جمہوریت کو درپیش مشکلات میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے برابر ہیں۔ یہ کوئی 'سیکھنے کا عمل'نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک دھوکہ ہے جو ہمیں ٹھوس ترقی اور مستحکم جمہوریت کی جانب جانے سے روکتا ہے۔ روایتی معاشروں میں جدید جمہوریت بعد میں آتی ہے، اور اس سے پہلے کثیر السطحی جدوجہد اور انسانی ترقی کے ذریعے سماجی و سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہندوستان جزوی طور پر مستثنیٰ ہو سکتا ہے، مگر زیادہ امکان ہے کہ نہیں۔

فوری ترقی ایک ٹیکنالوجیکل مرحلہ ہے، یہ سیاسی اور سماجی مرحلوں کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ آپ ایک ہدایت نامہ یا بلیوپرنٹ چرا سکتے ہیں مگر سیاسی تجربہ، سماجی تاریخ اور دانا قیادت نہیں چرا سکتے۔ سماجی و سیاسی جدوجہد کے بغیر ٹیکنالوجیکل ترقی صرف معاشی ناہمواریوں اور سماجی تفریق کو بڑھاتی ہے۔ اسی طرح سے جمہوریت کی نقل کرنا اور انتخابات کا پردہ فراہم کرنے سے سیاسی نظام نہیں فروغ پا سکتا اور عوام کو طویل عرصے سے گھیری ہوئی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ انتخابی اونچ نیچ کے باوجود اس طرح کے انتخابات صرف موجودہ استحصالی نظام کو مضبوط کرتے ہیں جس سے پاکستان سیاسی طور پر ناخوشگوار ملک بن چکا ہے۔

کمزور ریاستوں کو اس طرح کے سچ سے نفرت ہوتی ہے۔ جمہوریت چاہے جھوٹی ہو یا نہیں، ان کے لیے مقدس گائے ہی سمجھی جاتی ہے۔ مگر لی کوان یو (Lee Kuan Yew) کے مطابق جمہوریت رولز رائس گاڑی کی طرح ہے۔ اگر آپ اس کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں تو یہ سڑک پر موجود سب سے بہترین گاڑی ہے۔ ورنہ یہ بدترین سرمایہ کاری ہے۔ پاکستان کے 'جمہوری رہنما'اپنی رولز رائس چلاتے ہیں جبکہ عوام ٹول ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سیاسی گہما گہمی چاہے جتنی بھی، مگر پاکستان میں انتخابات کا تب تک کوئی مطلب نہیں جب تک کہ وہ ان تحریکوں کے ساتھ مجتمع نہیں ہو جاتے جو انتخابات ہوتے ہی ختم نہ ہو جائیں۔ انتخابات صرف اعلیٰ عہدوں کے لیے ہوتے ہیں۔ تحریکیں پاکستان کے لیے ہوتی ہیں۔

اشرف جہانگیر قاضی
یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 مئی 2018 کو شائع ہوا۔
 

ترقیاتی منصوبے اور مالی مدد : چین دھیان کس بات کا رکھتا ہے؟

$
0
0

ایک طویل عرصے تک چین ایک ڈونر ریاست کے بجائے ایک ایسا ملک رہا، جو بین الاقوامی مالی امداد صرف حاصل ہی کرتا تھا۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے چین ایک بڑا ڈونر ملک بن کر ابھرا ہے لیکن بیجنگ اپنے تجارتی مفادات کو کبھی نہیں بھولا۔ چین نے سن دو ہزار سات میں ہی ’بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم‘ (آئی ڈی ای) میں حصہ ڈالنا شروع کیا تھا۔ آئی ڈی ای ورلڈ بینک کا ایسا ذیلی ادارہ ہے، جو غریب ممالک کو امداد اور قرضے فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں چین نے ترقی پذیر ممالک کو امداد فراہم کرنے سے متعلق اپنے منصوبوں میں اضافہ کیا ہے، بالخصوص مشرقی ایشیائی ممالک میں بیجنگ نے کئی ریاستوں کی مالی مدد کی ہے۔ ان امدادی منصوبوں کو چینی خارجہ پالیسی کا اہم جزو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ چین کے لیے اس کا ایک اہم مقصد اپنے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنا بھی ہے۔

سن دو ہزار سولہ کے چینی اسٹیٹ کونسل کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بیجنگ نے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران 166 ممالک اور اداروں کو تقریباﹰ چار سو بلین یوآن (47.4 بلین ڈالر) کی امداد فراہم کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چین کی ترقیاتی پالیسی کے پیچھے یہ محرک کارفرما ہے کہ وہ نئی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرے، جس کے بدلے میں اس مالی فوائد بھی حاصل ہوں۔ سن دو ہزار سترہ میں ’ایڈ ڈیٹا‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ چین کی طرف سے مختلف ممالک کو دی جانے والی مالی امداد ’روایتی امداد‘ نہیں ہوتی بلکہ یہ کمرشل منصوبہ جات اور ایسے قرضوں کی شکل میں ہوتی ہے، جنہیں سود کے ساتھ واپس لوٹانا بھی ہوتا ہے۔

چین میں کارنیگی سِنگ ہُوآ مرکز فار عالمی پالیسی سے وابستہ سکالر میٹ فیرچن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چین کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد کا حجم اس سے کافی کم ہے، جسے وہ ترقیاتی مدد قرار دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں ’مالی مدد‘ سے مراد ایسی مدد ہے، جو گرانٹ ہوتی ہے یا پھر جس پر انتہائی کم سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ تاہم چین میں صورتحال مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ حکومت ’تجارت، سرمایہ کاری اور فنانس‘ کو بھی ترقیاتی امداد تصور کرتی ہے۔ چینی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کرتے ہوئے سیاسی تعلقات اور مفادات کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ صرف ’مشترکہ مفادات اور باہمی احترام‘ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین نے یہ بھی واضح کر رکھا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مالی امداد کرتے ہوئے ایسی کوئی شرط نہیں رکھتا کہ اس ملک میں اچھے طرز حکمرانی کے بنیادی لوازمات کا خیال رکھا جائے۔ اس تناظر میں میٹ فیرچن کا کہنا ہے کہ ایسے ممالک جہاں قانون کی بالادستی کا نظام کمزور ہے، وہاں چین سرمایہ کاری کرتے ہوئے مفادات حاصل کر سکتا ہے۔  امریکا کے معتبر تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک جائزے کے مطابق چین نے مالی امداد کیسے اور کسے دینا ہے، اس میں سیاست اہم کردار ادا کرتی ہے۔ متعدد رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین ایسے ممالک میں زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے، جہاں کی حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں یونیورسٹی آف وِٹ وانڈرز وانڈ کے اسکول برائے طرز حکمرانی سے منسلک پولیٹیکل اکانومی کے پروفیسر پیٹرک بانڈ نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ’’کبھی کبھار چین کی سرمایہ کاری انتہائی استحصال اور بدعنوانی کے علاوہ سیاسی مداخلت پر مبنی بھی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

فانگ وانگ / ع ب / م م

بشکریہ DW اردو
 

افغانستان کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے بھی نیچے

$
0
0

افغانستان کی انتیس ملین سے زائد کی مجموعی آبادی میں سے نصف سے زائد شہری دو ہزار سولہ اور دو ہزار سترہ کے مالی سال کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ یہ بات ایک نئی سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ افغان دارالحکومت کابل سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس رپورٹ کو افغانستان میں حالات زندگی کے سروے (Afghanistan Living Conditions Survey) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ملک کے مرکزی محکمہ شماریات اور یورپی یونین نے مل کر تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق خط غربت سے نیچے رہتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور قریب پندرہ ملین افغان باشندے اپنی تعداد میں ملک کی مجموعی آبادی کے پچپن فیصد کے برابر بنتے ہیں۔

دو ہزار گیارہ اور دو ہزار بارہ کے مالی سال میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افغان شہریوں کی تعداد ملکی آبادی کا اڑتیس فیصد بنتی تھی، جس میں نئی رپورٹ کے مطابق اب سترہ فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے اور اب غربت کے شکار افغان شہریوں کی تعداد اکثریت میں ہو گئی ہے۔ ورلڈ بینک کے افغانستان کے لیے ڈائریکٹر کے مطابق اس رپورٹ کا ایک خاص اور باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ یہ افغانستان میں سلامتی کی ذمے داریاں سن دو ہزار چودہ میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے ملکی فورسز کو منتقل ہونے کے بعد پہلی بار مرتب کی گئی ہے اور یہ حالات کے کہیں زیادہ پریشان کن رخ اختیار کر جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔ افغانستان کے لیے ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر شوبھم چوہدری کے مطابق آبادی کے اتنے بڑے حصے کا انتہائی غربت کا شکار ہونا اس لیے بھی باعث تشویش اور فوری اصلاح کا متقاضی ہے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان کی آبادی کا اڑتالیس فیصد یا قریب نصف حصہ ایسا ہے، جو پندرہ برس سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔

م م / ا ب ا / ڈی پی اے
 

Viewing all 4738 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>