Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

پھانسی کا آغاز کب ، کب اور کیسے ہوا ؟

$
0
0

موجودہ عراق میں دنیا کی قدیم ترین بابل کی تہذیب کا آغاز ہوا، وہاں سے ملنے والے حمورابی کے ضابطہ قانون میں سزائے موت کا ذکر ملتا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لئے قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک ’’پھانسی‘‘ کا طریقہ سب سے زیادہ عام ہے۔ آج بھی جن ممالک میں سزائے موت لاگو ہے وہاں اکثر ممالک میں پھانسی کے ذریعے ہی اس سزا پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ اس میں مجرم کی گردن کے گرد پھندا ڈال کر اسے اونچی جگہ سے لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گردن کی ہڈی ٹوٹنے یا دم گھٹنے سے مر جائے۔ 

پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت، پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس کا پورا طریق کار(کوڈ) موجود ہے، جس کے مطابق پھانسی کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ پھانسی سے ایک روز قبل مجرم کا وزن کیا جاتا ہے تا کہ اندازہ ہو سکے کہ رسی کیسی اور کتنی درکار ہو گی جو اس کے جسم کے بوجھ کو سہار سکے۔ ہر مجرم کے وزن کے مطابق رسی تیار کی جاتی ہے۔ مجرم کے وزن کے برابر ریت ایک بوری میں بھر کر اسے تختہ دار پر تجرباتی پھانسی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔

فوری موت کو یقینی بنانے کے لیے رسی کی لمبائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ رسی زیادہ لمبی ہو نے کی صورت میں ملزم کا سر تن سے جدا بھی ہو سکتا ہے لیکن بہت زیادہ چھوٹی کرنے پر مجرم کی موت دم گھٹنے سے ہی ہو گی یعنی اس میں بہت وقت صرف ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح جان نکلنے میں پون گھنٹہ لگ سکتا ہے، یعنی یہ بہت اذیت ناک موت ہو سکتی ہے۔ پھانسی دینے کے لیے جو رسی استعمال کی جاتی ہے وہ تین چوتھائی انچ سے لے کر سوا انچ تک موٹی ہوتی ہے۔ اسے پھانسی سے قبل گرم پانی میں اْبالا جاتا ہے اور خوب کھینچ تان کر سخت کیا جاتا ہے تاکہ اس میں لچک اور گھماؤ ختم ہو جائے۔ رسی میں جو گرہ لگائی جاتی ہے اسے موم یا صابن سے خوب چکنا کیا جاتا ہے تاکہ تختہ کھینچنے کے بعد وہ پھندے کو گردن کے گرد اچھی طرح کسنے میں مدد دے۔ 

پھانسی سے قبل قیدی کے ہاتھ اور ٹانگیں، دونوں باندھے جاتے ہیں۔ چہرے کو ڈھانپ دیا جاتا ہے، پھر پھندا گردن کے گرد ڈالنے کے بعد گرہ کو بائیں کان کے قریب رکھا جاتا ہے۔ پھانسی دیتے ہوئے اس کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا جاتا ہے، یوں قیدی نیچے لٹک جاتا ہے ۔ اس کے جسم کا پورا وزن گردن پر زور ڈالتا ہے جس سے گردن کی ہڈی ٹوٹ جانی چاہیے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ مجرم گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے مرا ہو۔ تختے پر جھولنے والے شخص کی گردن کے پٹھے مضبوط ہوں یا وزن کافی کم ہو یا پھر رسی چھوٹی ہو یا پھندے کے غلط جگہ پر کسا گیا ہو تو گردن کی ہڈی ٹوٹنے میں وقت لگ جاتا ہے اور موت صرف دم گھٹنے سے آہستہ آہستہ ہی واقع ہوتی ہے۔ اس صورت میں چہرہ خون جمنے کی وجہ سے سوج جاتا ہے، زبان اور آنکھیں باہر نکل آتی ہیں اور مجرم تختہ دار پر تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے۔ 

تاریخ میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہیں پھانسی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں۔ جنہیں 4 اپریل 1979ء کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں پھانسی دی گئی تھی۔ لیبیا کی تحریک آزادی کے رہنما عمر مختار کو 16 ستمبر 1931ء کو قابض اطالوی افواج نے پھانسی کی سزا دی۔ اسی سال یعنی 1931ء میں 23 مارچ کو لاہور میں برطانوی راج نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی تھی۔ 17 ستمبر 1961ء کو ترکی میں فوج نے سابق وزیراعظم عدنان میندریس کو آئین کی خلاف ورزی پر پھانسی دے دی۔عراق میں صدام حسین، بھارت میں افضل گورو اور بنگلا دیش میں      عبدالقادر ملا کی پھانسی کے واقعات نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔
 


سوشل میڈیا پر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان

$
0
0

ویسے تو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ وغیرہ کا استعمال مفت ہے اور بس انٹرنیٹ کا خرچہ کرنا پڑتا ہے تاہم پہلی بار دنیا میں ایک ملک سوشل میڈیا صارفین پر ٹیکس لگانے والا ہے۔ جی ہاں واقعی افریقی ملک یوگنڈا نے حیران کن اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی 2018 سے سوشل میڈیا ٹیکس کا نفاذ کیا جارہا ہے۔
یوگنڈا کے وزیر خزانہ Matia Kasaija نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیکس نے ملکی آمدنی میں اضافے کے ساتھ قومی سلامتی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا 'ہمیں ملکی سلامتی کو مستحکم بنانے اور بجلی کی فراہمی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ممکن بنانے کے لیے سرمایہ چاہئے تاکہ شہری سوشل میڈیا سے زیادہ لطف اندوز اور استعمال کرسکیں'۔ 

انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیکس ہر اس موبائل فون صارف پر لگے گا جو کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے واٹس ایپ، ٹوئٹر اور فیس بک وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں روزانہ 200 یوگنڈا شیلنگ (6 پاکستانی روپے سے زائد) ادا کرنا ہوں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ٹیکس کس طرح وصول کیا جائے گا کیونکہ بظاہر تو یہ کافی پیچیدہ کام ہے کہ یوگنڈا کے 2 کروڑ 36 لاکھ سے زائد موبائل فون صارفین کے زیراستعمال ہر ایپ کو مانیٹر کیا جا سکے۔ یوگنڈا کی جانب سے یہ اعلان کچھ زیادہ حیران بھی نہیں کیونکہ یہاں حکومت انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پر پابندی لگا چکی ہے۔ یہی ملک ماضی میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تشکیل دینے کا اعلان بھی کر چکا ہے.

 

نواز شریف بمقابلہ چیف جسٹس، ’جنگ‘ کہاں تک جائے گی ؟

$
0
0

سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور عدلیہ کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس تناؤ میں مزید شدت آج اس وقت آئی، جب نواز شریف نے یہ بیان دیا کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ جسٹس ثاقب نثار کی قیادت میں ’بدترین آمریت‘ ہے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک حاضر سروس چیف جسٹس پر آمر ہونے اور بدترین آمریت نافذ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس بیان سے ملک میں کشیدگی کی فضا مزید بڑھے گی۔ سیاست دانوں کے خدشات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ماضی میں آمریت کے خلاف لڑنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے خبردار کیا ہے کہ اداروں کے درمیان کشیدگی جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہو گی۔

قائدِ حزبِ اختلا ف نے نواز شریف اور چیف جسٹس دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اسلام آباد میں آج میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا، ’’معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ نواز شریف کو اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہیں۔ اور معذرت کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ چیف جسٹس کو بھی اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہیں۔‘‘ واضح رہے کہ نون لیگ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد سے ملکی عدلیہ کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہے۔ پہلے لیگی رہنماوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ عدالت نواز لیگ کے رہنماوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے ہسپتالوں کے دوروں اور سول معاملات میں مبینہ مداخلت پر بھی چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے غیر ضروری سکیورٹی مختلف افراد سے واپس لینے کا حکم دیا، جس کو مریم نواز کی طرف سے ہدفِ تنقید بنایا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کئی سیاسی جماعتیں نواز شریف کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کے خیال میں یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ملک بدترین سینسرشپ سے گزر رہا ہے۔ نواز شریف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں نے سیاسی طور پر کبھی بھی نواز شریف کی حمایت نہیں کی لیکن میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ملک میں سخت ترین سینسر شپ ہے۔ لوگوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کے آگے جھک چکی ہیں اور آپ نے اس کا ایک مظاہرہ سینیٹ کے انتخابات کے دوران بھی دیکھا۔ میڈیا کا بالکل گلہ دبا دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک دو اخبار بھی کچھ ایسا لکھ دیں جو طاقتور حلقوں کو ناگوار گزرے تو ان کو بلا کر دھمکی دی جاتی ہے۔ ہمیں خود بھی کام کرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا ہے۔ پہلے تو مارشل لاء ننگے طریقے سے ایک آمر لگاتا تھا لیکن آج جمہوریت بھی ہے، پارلیمنٹ بھی ہے، سول سوسائٹی بھی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں آمریت کی فضاء ہے۔‘‘

نواز شریف کے اس بیان کے حوالے سے ملک میں لوگوں کی آراء تقسیم ہیں۔ تحریک انصاف اور کئی دیگر جماعتیں نواز شریف کے خلاف احتساب اور عدالتی کارروائیوں کو بالکل صحیح قرار دیتی ہیں جب کہ نواز مخالف سیاسی تجزیہ کار بھی عدالتوں کے کام میں کوئی برائی نہیں دیکھتے۔ لیکن نون لیگ اور اس کے اتحادی اس احتساب کو امتیازی قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے عدلیہ کا دفاع کرتے ہوئے تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس وقت ملک میں آمریت نہیں تھی، جب انہوں نے ماڈل ٹاون میں درجنوں افراد کو ہلاک کروایا اور سینکڑوں کو زخمی کیا۔ جب عدالتیں خاموش تھیں تو سب ٹھیک تھا۔ آج اگر عدالت نے اس واقعے کی تفصیل مانگ لی ہے اور اس پر کارروائی کے حوالے سے جواب طلب کیا ہے تو عدالتیں خراب ہو گئیں ہیں اور چیف جسٹس نے آمریت قائم کر دی ہے۔

جب انہوں نے عدالتوں پر حملے کئے اور عدالتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں تو عدالتیں اچھی تھیں۔ آج یہ حملہ نہیں کر سکتے اور انہیں احتساب کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے تو عدالتیں خراب ہیں اور انہوں نے آمریت مسلط کر دی ہے۔ یہ سب کچھ عدالتوں کو بدنام کرنے کے لئے اور احتساب عدالت کے فیصلے کو پہلے ہی سے متنازعہ بنانے کے لئے کیا جا رہا ہے لیکن اس سے نواز شریف کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سیدھی سے بات ہے کہ ایوین فیلڈ فلیٹ کی منی ٹریل دے دیں تو ان کی جان چھوٹ جائے گا۔‘‘ سیاسی مبصرین کے خیال میں آنے والے دنوں میں ملک مزید سیاسی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ ایک طرف عدلیہ، فوج اور نواز شریف کے درمیان کشیدگی ہے اور دوسری طرف وفاق کے علامت سمجھے جانے والے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات پر بھی اب کھل کو تنقید ہو رہی ہے، جس میں جماعتِ اسلامی کے رہنما سراج الحق کے بیان کے بعد مزید شدت آگئی ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

مجبوری میں لکھا گیا کالم : وسعت اللہ خان

$
0
0

مجھے نہیں معلوم کہ سبب کیا ہے البتہ پچھلے چند برس میں ایک تبدیلی تو ضرور آئی ہے۔ اب لوگ اپنے الفاظ واپس لینے لگے ہیں اور معذرت بھی کرنے لگے ہیں۔ درگذر کرنے والوں کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ جیسے سندھ یونیورسٹی کی برفت انتظامیہ نے سائن بورڈز کے بارے میں ایک نوٹیفکیشن نکالا اردو میڈیا نے اس کا مطلب کچھ اور نکالا اور پھر برفت انتظامیہ نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اردو میڈیا پر ٹھنڈی بالٹی ڈال دی۔ جیسے محتاط انور مقصود کا قلم پھسل کر نسل پرستانہ جوہڑ میں جا گرا۔ توجہ دلانے پر اس نے لاکھوں ٹوٹے دلوں سے معذرت کر لی۔

مگر ایسا ہوتا ہی کیوں ہے کہ کوئی ایک نوٹیفکیشن جاری ہونے پر لگے کہ دوسرے کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا اور کسی ایک جملے پر یوں محسوس ہو گویا پوری نسل اور قوم پر ہی خطِ تنسیخ پھیر دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو باہر سے تو جانتے ہیں مگر اندر سے جاننے میں نہ کوئی دلچسپی ہے ، نہ وقت دینے کو تیار ہیں۔ ذرا سا ناخن لگ جائے تو تعلق کا پینٹ اکھڑنے لگتا ہے۔ اگرچہ مجھے کسی بھی مضمون میں اپنی ذات کو بیچ میں لانے کا عمل گھٹیا پن لگتا ہے مگر پچھلے دو ہفتے کے دوران سوشل میڈیا پر جو لفظیاتی مجرہ ہوا ہے، اسے دیکھ کر میں اپنے تجربات بتانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔

میں ان چند خوش قسمت لکھاریوں میں سے ہوں جنہوں نے سندھیوں اور غیر سندھیوں کا تھوڑا بہت اعتماد کمایا ہے۔ میرے لیے یہ تولنا بہت مشکل ہے کہ کون مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے اور میں خود کو کس کے زیادہ قریب پاتا ہوں۔ اسی لیے میں سندھ کو اپنے گھر کا ڈرائنگ روم تصور کر کے بے دھڑک اچھی بری باتیں کرتا ہوں مگر لوگ غصے میں نہیں آتے بلکہ مثبت انداز میں دھواں دھار بحث کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں، فقرے بھی کستے ہیں، ایک دوسرے سے سیکھتے بھی ہیں اور پھر اگلی ملاقات کے وعدے پر رخصت ہو جاتے ہیں۔

مگر یہ لگڑری سندھیوں اور غیر سندھیوں کی اکثریت کو حاصل نہیں۔ وہ ایک دوسرے کے قریب قریب تو ضرور رہتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ وقت گذارنے کا ضروری لازمی وقت نہیں۔ لہذا ایک دوسرے کے بارے میں ان کا امیج وہی پرانا سٹیریو ٹائپ ہے۔ جو انھوں نے کسی اور سے سن رکھا ہے اور کسی اور نے کسی اور سے سن رکھا ہے۔ میں جب حیدرآباد ، تھر ، سکھر یا لاڑکانہ ، شکار پور جاتا ہوں تو ہر ایک کو بتاتا ہوں کہ میں تم لوگوں سے ملنے آیا ہوں۔ ہر دروازہ ، ہر بازو کھلتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی دیدہ و دل راہ ِ فراش کرنے والے سندھی کراچی آتے ہیں تو مجھے کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔ وہ اپنے سارے کام کاج نمٹا کے خاموشی سے چلے جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ احسان کرتے ہیں کہ جاتے وقت کال کر لیتے ہیں کہ ہم یہاں آئے ، ایک ہفتہ رہے اب جا رہے ہیں آپ کو ڈسٹرب نہیں کیا۔ سوچا کہ آپ مصروف آدمی ہیں۔

جب کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میری مصروفیت کو اپنا دفاعی ہتھیار بنانے والے یہ لوگ اپنے تمام ہم نسل و ہم زبان دوستوں سے مل ملا کر واپس جا رہے ہیں۔ یہاں پر آ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ سندھی مجھے اپنے جیسا سمجھنے سے لاشعوری طور پر جھجھک رہے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جسے میں دو طرفہ تعلق سمجھ رہا ہوں شائد وہ یکطرفہ ہی ہے۔ یا شائد سپرہائی وے پر قائم ٹول پلازہ میں کوئی گڑ بڑ ہے کہ جس کے آرپار ہوتے ہی رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ جہاں تک اردو بولنے والوں کی نفسیات کا معاملہ ہے تو جو اردو کمیونٹی کراچی اور حیدرآباد سے باہر کے علاقوں میں آباد ہے اس کا نسلی و لسانی ربط و ضبط سندھیوں کے ساتھ زیادہ مضبوط ہے۔

وہ گھر میں اردو مگر باہر سندھی بولتے ہیں۔ ستر برس میں رہن سہن اور کسی حد تک ریتی رواج پر بھی ایک دوسرے کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ مگر کراچی کا اردو داں مڈل کلاسیا اسی الگ تھلگ سٹیریو ٹائپ پروفائلنگ میں مبتلا ہے جس طرح سندھی مڈل کلاس یا اشرافیہ ایک علیحدہ سماجی کلب کے طور پر رہنے کی عادی ہے۔ سندھی بولنے والے تو پھر بھی کسی نہ کسی ضرورت یا مجبوری یا شوق میں ٹول پلازہ کے آر پار آنے جانے اور رہنے کے عادی ہیں مگر کراچی کی اردو مڈل کلاس اور اشرافیہ نے شادی بیاہ ، مرگ یا عید کے بکرے خریدنے کی ضرورت کے علاوہ شائد ہی اس لیے ٹول پلازہ عبور کیا ہو کہ چلو دیکھتے ہیں اس پار کیسے لوگ ہیں ، کیسے رہتے ہیں ، کن باتوں پر خوش اور اداس ہوتے ہیں ، ان کے خواب اور تعبیریں کیا ہیں۔ سندھ ایک ہی ملک ہے یا اس ملک میں چار پانچ چھوٹے ملک اپنے اپنے رنگوں کے ساتھ ایک دوسرے سے بڑی سی اکائی میں جڑے ہوئے ہیں۔

اردو مڈل کلاس اور اشرافیہ جتنا لاہور ، اسلام آباد ، کاغان اور نیویارک کے بارے میں جانتی ہے اس سے بہت کم تھر ، کوٹ ڈیجی اور بھٹ شاہ کے بارے میں جانتی ہے۔ اور پھر جب یہی سندھی اور اردو لوگ اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آتے ہیں تو اپنے اپنے سٹیریو چشمے اتارنا نہیں بھولتے۔ یوں نہ جاننے کی خواہش سیاسی کش مکش کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ہر ہر لکھے اور بولے لفظ کو پہلے سے بنی ہوئی نفسیات کے ترازو میں تول کے دیکھا جاتا ہے اور یوں کاروبارِ غلط فہمی رواں رہتا ہے۔ سندھیوں نے تو ضرورت کی مجبوری میں اردو اور انگریزی سیکھ لی مگر سندھیوں کو سمجھنے کے لیے اردو دانوں نے سندھی سیکھنے کی کتنی شعوری کوشش کی ؟ ہو سکتا ہے آپ کو سندھی اردو مشاعروں میں جا کر کوئی خوشی ہوتی ہو مگر مجھے دکھ ہوتا ہے۔ یہ لسانی ہم آہنگی کا ثبوت نہیں لسانی کم مائیگی کا ثبوت ہیں۔

سندھی زبان مجھے بھی نہیں آتی مگر میں سندھی مافی الضمیر سمجھ کر اور سرائیکی بول کے کام چلا لیتا ہوں کیونکہ سندھیوں کی اکثریت دو لسانی ہے۔ مگر صرف اردو بول کر سندھ کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے سندھی ضرورت کی مجبوری میں ضرورت کی اردو بول کر زبان میں پوشیدہ ان لطیف جذبوں کو پوری طرح سمجھنے اور چسکے لینے سے قاصر ہیں جو صرف ایک زبان کو پوری طرح جاننے اور برتنے سے ہی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ اسی طرح صرف تہنجو نالو چھا آہے سیکھ لینا سندھی نہیں۔ جس اسکول میں بچے انگریزی اور اردو سیکھتے ہیں۔ اسی اسکول میں سندھی کا بھی قاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔ کبھی خیال آیا اپنے بچے سے یہ پوچھنے کا کہ بیٹا انگلش میں طوطے کو پیرٹ کہتے ہیں مگر سندھی میں کیا کہتے ہیں ؟ جس دن یہ خیال آ گیا اس دن کے بعد کسی کو کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پنجاب میں کوئی اردو دان کسی پنجابی سے یا پنجابی کسی اردو داں لکھاری سے معافی نہیں مانگتا۔ کیونکہ دونوں کو دونوں زبانیں آتی ہیں۔ زبان ہی وہ سڑک ہے جو دل کو دل سے ملا سکتی ہے۔ باقی سب تھیوریاں ہیں۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو
 

ہر دس میں سے نو افراد آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں

$
0
0

انسان کی سانس روک لی جائے تو وہ چند ہی منٹ میں دم گھٹنے سے مر جائے گا۔ اس سے ہمارے اردگرد موجود ہوا، جس میں ہم سانس لیتے ہیں، کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن ہماری ہوا بہت آلودہ ہو چکی ہے اور مزید ہوتی جا رہی ہے۔ ہوا کی حالت کے بارے میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی 95 فیصد آبادی جس فضا میں سانس لے رہی ہے وہ غیر صحت مندانہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا میں 2016ء میں 61 لاکھ اموات ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی امراض قلب، دل کے دورے، پھیپھڑوں کے مہلک امراض بشمول کینسر اور قبل از وقت اموات کی وجہ ہے۔ 

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر)، خوراک اور تمباکو نوشی کے بعد صحت کو سب سے زیادہ خطرہ آلودہ فضا سے ہے۔ یہ رپورٹ ہیلتھ ایفکٹ انسٹی ٹیوٹ نے شائع کی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے بالخصوص نظام تنفس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو سانس لینے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ نتیجتاً چھوٹے بڑے تمام متاثرہ افراد کو ہسپتال جانا پڑتا ہے جس سے ان کے سکول اور کام کا حرج ہوتا ہے۔ 

ان کے مطابق دنیا کے کچھ حصوں میں اس حوالے سے صورت حال بہتر ہو رہی ہے لیکن عالمی سطح پر اس سے نجات ایک حقیقی چیلنج ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی نصف کے قریب اموات چین اور بھارت میں ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں قدرے کامیابی حاصل کی ہے لیکن 2010ء کے بعد پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں فضائی آلودگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ برس اپریل میں کہا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی سے پانچ سال سے کم عمر کے اندازاً 17 لاکھ بچے سالانہ ہلاک ہو رہے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق 2015ء میں ہر چھ میں سے ایک، یعنی نوے لاکھ افراد آلودگی کی کسی نہ کسی شکل سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس میں فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی، کیمیائی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں فضائی آلودگی سے اموات کی شرح زیادہ ہے۔  

ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا


 

ترکی میں قبل از وقت انتخابات کیوں ہو رہے ہیں ؟

$
0
0

ترکی میں نئے صدارتی نظام کے تحت نومبر 2019ء میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کا شیڈول وضع کیا گیا تھا لیکن اب یہ انتخابات ڈیڑھ سال قبل ہی کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ ترکی کی تمام اپوزیشن جماعتیں اس سے قبل ملک میں قبل از وقت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن صدر ایردوان نے کبھی بھی اپوزیشن جماعتوں کے ان مطالبات کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ ملک میں انتخابات وقت پر ہی کروانے پر زور دیتے رہے لیکن صورتِ حال نے اس وقت پلٹا کھایا جب ایردوان ہی کے اتحادی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چیئرمین دولت باہچے لی نے پارلیمنٹ میں پارٹی گروپ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے 26 اگست 2018ء بروز اتوار ملک میں ایک ساتھ ہی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ 

ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے مطابق دراصل ’’باہچے لی‘‘ نے صدر ایردوان ہی کی ہدایت پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا جبکہ صدر ایردوان نے اس بارے میں ایک نجی ٹیلی وژن کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ آتے ہوئے ہی راستے میں دولت باہچے لی کے اس مطالبے سے آگاہی حاصل کی تھی اور اس لئے انہوں نے پارلیمنٹ میں پارٹی کے گروپ اجلاس میں (باہچے لی کے خطاب کے بعد) خطاب کرتے ہوئے قبل از وقت نہیں بلکہ وقت پر ہی انتخابات کروانے سے آگاہ کیا تھا لیکن بعد میں اسی روز نیشنلسٹ پارٹی کے چیئرمین کے ساتھ مذاکرات کے دوران قبل از وقت انتخابات کروانے کی حامی بھر لی تھی اور پھر انہوں نے اپنی پارٹی کے اعلیٰ حکام سے مشورہ کرنے کے بعد 24 جون 2018ء بروز اتوار قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔

رجب طیب ایردوان دنیا بھر میں بڑے منجھے ہوئے سیاستدان تصور کیے جاتے ہیں اور اپنی اس سیاسی بصیرت، عقل و دانش اور فہم و فراست کی بدولت ترکی کی سیاست میں اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے ترکی کے متوسط طبقے میں پرورش پائی اور اپنی قوتِ بازو کے بھروسے پر ترکی کی سیاست کے تمام زینے چڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے ترکی میں سیاست کو علمِ سائنس اور علمِ ریاضی کی شکل عطا کرتے ہوئے نئی جہت عطا کی اور اب وہ ترکی میں سیاست کو ریاضی اور سائنس کے اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں پر برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔ 

انہوں نے سیاست میں اس نئی حکمتِ عملی کو اپنا کر اپنے مد مقابل تمام حریفوں کو پچھاڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت میں ہونے والی کمی بیشی کا اندازہ لگانے کیلئے ہر ماہ باقاعدگی سے سروے کروانے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ وہ کسی خود فریبی میں مبتلا ہونے کی بجائے غیر جانبدار سرویز کرنیوالی فرموں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے سروے کا بھی جائزہ لیتے رہتے ہیں اور انکے نتائج کے سہارے ہی اپنی حکمتِ عمل وضع کرتے ہیں۔ ایردوان کو جب ان سرویز کی بدولت معلوم ہوا کہ مختلف شہروں کے میئرز کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے اور اسکے اثرات انکی جماعت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں تو انہوں نے فوری طور پر ان میئرز کو مستعفی ہونے پر قائل کیا اور نئے پرجوش اور مقبول میئرز کو ان کی جگہ پر منتخب کروایا۔ 

ایردوان ایک ایسے لیڈر ہیں جن کو ملکی تجارت سے لیکر ٹورازم، اقتصادیات سے لے کر ثقافت، دفاع سے لیکر ملکی امن و امان تمام ہی شعبوں پر مہارت حاصل ہے اور ان تمام شعبوں کے اعدادو شمار پر گہری نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر اور ملکی کرنسی کی قدرو قیمت اور اقتصادی ترقی کے تمام پہلوئوں اور اعداد و شمار کا انگلیوں پر حساب رکھنے والے ایردوان اکثر و بیشتر اقتصادی ماہرین کی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ درست اقدام اٹھانے سے بھی آگاہ کرتے رہتے۔ انہوں نے جب شام میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا اپوزیشن جماعتوں کے تمام سیاستدان اس بات پر متفق تھے کہ اب ایردوان کو منہ کی کھانی پڑے گی اور ایردوان کے زوال کا آغاز ہو جائے گا۔ 

اُردو زبان کی مشہور کہاوت ہے ’’بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے‘‘ ایردوان نے بلا سوچے سمجھے فوجی آپریشن شروع نہیں کیا تھا۔ اب یہی آپریشن جس میں ترک فوج کو بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں صدر ایردوان کی کامیابی اور قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کرنے کا سبب بنا ہے۔ ترک فوج نے امریکہ کی وارننگز کی پروا کیے بغیر شام کے سرحدی علاقوں کو فتح کرتے ہوئے جو تاریخی کامیابی حاصل کی اس سے ترکی میں دہشت گردی کے واقعات ختم ہو گئے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جس کے ملکی اقتصادیات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور ترکی نے گزشتہ سال ساڑھے سات فیصد کی شرح سے ترقی کرتے ہوئے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور قرضہ جات کی درجہ بندی کرنیوالے تمام بین الاقوامی اداروں کے تخمینوں کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ 

ان تمام حالات نے صدر ایردوان کو بھی اپنا فیصلہ تبدیل کرنے اور ڈیڑھ سال پہلے ہی قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے خواب خرگوش میں کھوئی ہوئی سیاسی جماعتوں کو بیدار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں فی الحال ایسی کوئی جماعت دکھائی نہیں دیتی ہے جو تن تنہا صدر ایردوان کا مقابلہ کر سکے۔ بائیں بازو کی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو ابھی تک صدارتی انتخابات میں خود حصہ لینے نہ لینے کا فیصلہ ہی نہیں کر سکے ہیں جبکہ ان کیساتھ اتحاد کیلئے تیار جماعتوں میں سابق وزیر داخلہ ’’میرال آقشینر‘‘ کی قائم کردہ "Good"پارٹی جو دائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی ہے نے ری پبلکن پارٹی کے ساتھ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اتحاد کرتے ہوئے مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس اتحاد میں مرحوم اربکان کی ’’سعادت پارٹی‘‘ کے بھی شریک ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر ری پبلکن پارٹی نے صدارتی امیدوار کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ’’گڈ پارٹی‘‘ میں اپنے 15 اراکین کو ٹرانسفر کر دیا ہے تاکہ اس جماعت کو پارلیمنٹ میں بیس اراکین پر مشتمل گروپ بنانے میں مدد ملے اور اس طرح وہ سرکاری طور پر انتخابی مہم کے دوران حکومت سے فنڈ حاصل کر سکے۔ ترکی کے سیاسی حلقے ان 15 ارکان کے ٹرانسفر کو غیراخلاقی سودے بازی قرار دے رہے ہیں اسے 5 جون 1977ء کے اس واقعہ سے تشبیہ دے رہے ہیں جس کے تحت اس وقت کے ری پبلکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلنت ایجوت نے جسٹس پارٹی کے گیارہ اراکین کو وزارتوں کا لالچ دیکر جسٹس پارٹی کی حکومت کو گرا دیا تھا اور ان گیارہ ارکان کی حمایت سے نئی حکومت قائم کی تھی۔ اب ری پبلکن پارٹی کے ان 15 ارکان کے ’’گڈپارٹی‘‘ میں ٹرانسفر کو ری پبلکن اور گڈ پارٹی دونوں کے ماتھے پر بدنما داغ سمجھا جا رہا ہے جسکے لازمی اثرات صدارتی اور پارلیمانی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے۔

ڈاکٹر فر قان حمید
 

اسرائیل کی شام میں روسی فضائی دفاعی نظام تباہ کرنے کی دھمکی

$
0
0

اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے ایک بیان میں دھمکی دی ہے کہ شام میں موجود روس کا فضائی دفاعی نظام ’S-300‘ اسرائیل کے خلاف استعمال ہوا تو اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ عبرانی اخبار کی ویب سائیٹ ’وائی نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’اہم بات یہ ہے کہ روس نے جو دفاعی نظام شام میں اسد رجیم کو دے رکھے ہیں انہیں ہمارے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ اگر وہ ہتھیار ہمارے خلاف استعمال ہوئے تو ہم حرکت میں آئیں گے‘۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایک روسی سفارت کار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام نے ماسکو سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شامی رجیم کو ’S-300‘ جیسا فضائی دفاعی نظام فراہم نہ کرے، کیونکہ خطرہ ہے کہ اس کے ذریعے اسرائیل پر میزائل برسائے جا سکتے ہیں۔

لائبرمین نے کہا کہ ہم شام میں اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے مگر شام کو ایران کی کالونی نہیں بننے دیں گے۔ شام میں بھیجے گئے اسلحے کو ہمارے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہمارے خلاف استعمال کیا گیا تو ہم اس کا جواب دیں گے۔ ہم نہیں دیکھیں گے کہ وہ ’S-300‘ ہے یا S-700 یا کوئی اور چیز ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ شام میں موجود روسی دفاعی نظام اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہو گا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی سال سے کامیاب تعاون جاری ہے۔ شام میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی پریشان کن صورت حال پیدا نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں جو دفاعی نظام ہمارے خلاف استعمال ہو گا اور ہمیں پتا چلے گا کہ شامی رجیم یا اس کے کسی معاون کے ہتھیار ہمارے خلاف استعمال ہوئے ہیں تو ہم انہیں تباہ کر دیں گے۔

العربیہ نیٹ

 

ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن اب انتہائی معزز

$
0
0

صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اُنھیں توقع ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن سے ’’بہت ہی جلد‘‘ ملاقات ہو گی اور کِم کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ’’کشادہ دل‘‘ اور ’’انتہائی معزز‘‘ شخص ہیں۔ فرانس کے صدر امانیوئیل مکخواں سے بات چیت کے بعد، ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہمیں براہِ راست بتایا گیا ہے کہ وہ جلد سے جلد ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا کے لیے ایک بڑی بات ہو گی‘‘۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’’ہمیں انتظار رہے گا کہ یہ سارا سلسلہ کہاں تک جاتا ہے‘‘۔ اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات سے اٹھ کھڑے ہوں گے، لیکن زور دے کر کہا کہ ’’ہمارے پاس کچھ خاص کر گزرنے کا ایک موقع ہے‘‘۔

وائٹ ہاؤس کہہ چکا ہے کہ ٹرمپ اور کِم کے مابین مذاکرات کا اصل ہدف جوہری ہتھیاروں کی تخفیف ہی ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف ’’شدید دباؤ‘‘ جاری رہے گا اور تنہا رہ جانے والے اس ملک کے خلاف تعزیرات تب تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک وہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی جانب ٹھوس قدم نہیں بڑھاتا۔ جب اُن سے پوچھا گیا آیا مکمل تخفیف سے اُن کی کیا مراد ہے، ٹرمپ نے کہا کہ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ بالکل یہی‘‘۔

شمالی کوریا کے حالیہ اعلان کے بارے میں وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارا ہکابی سینڈرز نے ’وائس آف امریکہ‘ کے سوال پر کہا کہ ’’ہم شمالی کوریا کو محض اُن کے الفاظ کی بنیاد پر سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں‘‘۔ بقول اُن کے، ’’اِس عمل میں ہم اتنے سادہ لوح نہیں۔ ہم نے درست سمت میں لیے گئے کچھ اقدامات دیکھے ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی بہت آگے جانا ہے‘‘۔ کِم نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات منجمد کرنے اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل داغنے کا عمل بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

العربیہ نیٹ
 


نقیب اللہ قتل کیس : راؤ انوار ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار، عمل دہشتگردی قرار

$
0
0

نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے عمل کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ سندھ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ تیار کر لی جس میں ڈی پی او بہاولپور کی رپورٹ کا بھی ذکر ہے اور ڈی پی او بہاولپور کے مطابق محمد صابر اور محمد اسحاق کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ راؤ انوار نے نقیب اللہ و د یگر کو ماورائے عدالت قتل کیا، راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران کا عمل دہشت گردی ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ اور دیگر کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا، ماورائے عدالت قتل کو تحفظ دینے کے لیے میڈیا میں جھوٹ بولا گیا، واقعے کے بعد راؤ انوار اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں نے شواہد ضائع کیے۔ رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور دیگر ملزمان نے اپنے اختیارات کا بھی ناجائز استعمال کیا، ملزمان کا مقصد اپنے دیگر غیر قانونی اقدامات کو تقویت اور دوام پہنچانا تھا۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ کی تیاری میں جیو فینسنگ اور فارنزک رپورٹ کا سہارا لیا ہے جب کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈی این اے رپورٹ سے چاروں افراد کا الگ الگ قتل ثابت ہوتا ہے، چاروں افراد کو دو الگ الگ کمروں میں قتل کیا گیا، ایک کمرے کے قالین پر دو افراد کے خون کے شواہد ملے جب کہ دوسرے کمرے کے قالین پر چاروں کے خون کے شواہد ملے، ثابت ہوتا کہ چاروں افراد کو جھوٹے پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا جس کے بعد بعد میں لاشیں دو مختلف کمروں میں ڈال دی گئیں۔

مقتول نظر جان کے کپڑوں پر موجود گولیوں کے سوراخ کی فارنزک رپورٹ بھی حصہ ہے جب کہ بتایا گیا ہے کہ مقتول نظر جان پر ایک سے پانچ فٹ کے فاصلے سے فائرنگ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد اس کے ہمراہ بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا، ملزم کیس میں ملوث نہ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا جب کہ پوچھ گچھ کے دوران ملزم راؤ انوار نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ جیو فینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی موقع پر موجودگی ثابت ہے، مقتولین کو دہشت گرد قرار دے کر جھوٹے پولیس مقابلے میں ہلاک کرنا بخوبی ثابت ہے۔ رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کو رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دی ہے جب کہ جے آئی ٹی کی روشنی میں ضمنی چالان پیش کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

فہیم صدیقی
بشکریہ جیو نیوز اردو

جوڈیشل ایکٹو ازم یا ایگزیکٹو ازم ؟

$
0
0

افتخار محمد چودھری کے چیف جسٹس بننے سے پہلے بیشتر پاکستانی نہیں جانتے تھے کہ ازخود نوٹس کیا ہوتا ہے۔ وہ آئے دن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی خبروں پر ازخود نوٹس لیتے اور میڈیا اپنی خبر کے عدالتی نوٹس کی خصوصی کوریج کرتا۔ ان ازخود نوٹسز سے معاشرے پر کیا مثبت اثرات پڑے، اس سوال کے متضاد جوابات ملتے ہیں۔ افتخار محمد چودھری کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے بھی ازخود نوٹس لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس پر کچھ سینئر وکلا نے دبی آواز میں اعتراض شروع کیا۔ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں یہ سلسلہ بڑھ گیا۔ انھوں نے پے در پے کئی ازخود نوٹس ایسے لیے جن پر وکلا تنظیموں اور سینئر صحافیوں کو تعجب ہوا اور انھوں نے تنقید بھی کی۔ ان میں اینکرپرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کا معاملہ بھی تھا جنھوں نے زینب قتل کیس میں بڑے بڑے دعوے کیے۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تو وہ کوئی دعویٰ ثابت نہ کر سکے۔

گزشتہ روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ انھوں نے وکلا تنظیموں اور میڈیا کے اعتراضات پر ازخود نوٹس لینا بند کر دیے ہیں۔ سابق وزیر قانون اعتزاز احسن نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے کئی ایسے ازخود نوٹس لیے جو انھیں نہیں لینا چاہیے تھے۔ ایسے نوٹس پہلی یا دوسری پیشی پر نمٹانے پڑے کیونکہ حقیقت کچھ اور تھی اور اخبار میں کچھ اور آیا تھا۔ چیف جسٹس اپنے ازخود نوٹس کے اختیار سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ لیکن، ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے لیے کچھ حدود و قیود مقرر کی ہوں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوزم بری چیز نہیں ہے۔ لیکن افتخار محمد چودھری پندرہ سولہ ججوں کو ساتھ بٹھا کر مقدمہ سنتے تھے۔ اس کے بعد اس فیصلے پر نظرثانی ہونا ناممکن ہو جاتا تھا۔ اگر چھوٹے بینچ کیس سن رہے ہوں اور لارجر بینچ کو نظرثانی کا اختیار ہو تو پھر کوئی ہرج نہیں۔ سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ایکٹوزم اور ایگزیکٹوزم میں باریک سی لائن ہوتی ہے۔ جب ایکٹوزم بڑھ جاتا ہے تو اس کی شکل ایگزیکٹوزم کی ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو اعتراض اس پر ہوتا ہے۔ ایکٹوزم زیادہ ہو جائے تو خیال ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے اور کوئی کام نہیں کر رہی۔ عدالت کا زیادہ متحرک ہونا الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں توازن ہونا چاہیے اور کم سے کم مداخلت کرنی چاہیے۔ سینئر قانون دان سمجھتے ہیں کہ ازخود نوٹس اور جوڈیشل ایکٹوزم کے ضابطے طے کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام عدلیہ کو ازخود کرنا چاہیے ورنہ کسی موقع پر پارلیمان کو قانون سازی کرنا پڑے گی۔

مبشر علی زیدی

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا

$
0
0

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی لارجر بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد 10 اپریل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ خواجہ آصف نے 2013 میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 110 پر پونے والے انتخابات کے لیے اہل نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے آئین کے ارٹیکل 62 (ون) (ویف) کے تحت مقرر کردہ شرائط پر پورا نہیں اترتے، اسی لیے انہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
عدالتِ عالیہ نے رجسٹرار کو خواجہ آصف کی نااہلی کے فیصلے کی کاپی الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو منتحب نمائندوں کو نااہل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات کا استعمال کرنا اچھا نہیں لگتا، سیاسی قوتوں کو اپنے تنازعات سیاسی فورم پر ہی حل کرنے چاہئیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں آنے سے دیگر سائیلین کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی جانب سے خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کے لیے دائر کی گئی درخواست دائر کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما کی درخواست میں الزام عائد گیا تھا کہ وفاقی وزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات 2013 کے انتخابات سے قبل ظاہر نہیں کیں اس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے مستحق نہیں۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ خواجہ آصف نے اپنے نامزدگی فارم میں اپنے تمام اثاثے ظاہر نہیں کیے اور غلط بیانی کی، خواجہ آصف صادق اور امین نہیں رہے اس لیے انہیں نااہل قرار دیا جائے۔ پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کی درخواست پر پہلے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، تاہم بعد میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی طرف سے معذرت کے بعد نیا بینچ تشکیل دیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں نئے بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے دلائل مکمل ہونے اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ مزید کوئی دستاویز پیش کرنی ہے تو تحریری درخواست کے ساتھ جمع کرائی جا سکتی ہے، جس کے بعد خواجہ آصف نے دبئی کی کمپنی کا خط پیش کیا۔ خط میں خواجہ آصف کی ملازمت کی تصدیق کی گئی اور بتایا گیا کہ کمپنی کی طرف سے ان پر دبئی میں موجودگی کی شرط عائد نہیں کی گئی، جب بھی ضرورت ہو تو فون پر خواجہ آصف سے قانونی رائے حاصل کر لی جاتی ہے۔ سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے ہمراہ دیگر مقامی رہنما بھی موجود تھے۔ دوسری جانب خواجہ آصف سمیت حکمراں جماعت کے کوئی بھی رہنما عدالت میں موجود نہیں تھا۔

بشکریہ روزنامہ ڈآن اردو
 

کوریائی سربراہان کی 65 برس بعد تاریخی ملاقات

$
0
0

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے مابین طویل عرصے سے جاری کشیدگی کے دوران گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں پہلی بار دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ جنوبی کوریا کے سرحدی گاؤں ’پان من جوم‘ میں جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کِم جونگ اُن نے اپنے اعلیٰ سطحی وفود کے ہمراہ ملاقات کی، جس میں جزیرہ نما کوریا میں امن و استحکام اور باہمی تعلقات کے حوالے سے مذاکرات کیے گئے۔

واضح رہے 1953 میں کوریا جنگ کے اختتام کے بعد دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی یہ تیسری ملاقات تھی جس میں سے گزشتہ 2 ملاقاتیں بالترتیب سال 2000 اور 2007 میں شمالی کوریا میں ہوئیں، جبکہ کوریا جنگ کے بعد کِم جونگ ان شمالی کوریا کے پہلے حکمران ہیں جو سرحد عبور کر کے جنوبی کوریا آئے۔ ملاقات کے بعد دونوں سربراہان نے مشترکہ طور پر ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس کے تحت اتفاق کیا گیا کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے گا، تاہم اس ضمن میں کسی لائحہ عمل یا ممکنہ مدت کا ذکر نہیں کیا گیا۔

مشترکہ اعلامیے میں خطے میں فوجی کشیدگی کم کرنے کے لیے اسلحے میں کمی کرنے، جنگ کے دوران بچھڑ جانے والے خاندانوں کی ملاقات کرانے، دونوں ممالک کو ریل کے نظام سے آپس میں منسلک کرنے اور رواں سال ہونے والے ایشیائی گیمز سمیت کھیلوں کی دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک میں مستقل امن کے قیام اور جنگ کے خاتمے کے لیے سال کے آخر تک معاہدہ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا، جبکہ ان مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد لینے پر بھی رضامندی ظاہر کی گئی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1953 میں کوریا جنگ کا اختتام ایک سمجھوتے کے تحت کیا گیا تھا اور باقاعدہ طور پر جنگ کے خاتمے کا معاہدہ تاحال نہیں کیا جا سکا، جس کے سبب دونوں ممالک تکنیکی اعتبار سے اب بھی حالت جنگ میں ہیں۔
 

کیا بھارت میں عدلیہ کی آزادی خطرے میں ہے؟

$
0
0

انڈیا کی مرکزی حکومت نے اس ہفتے سپریم کورٹ میں دو ججوں کی تقرری کے
لیے ’کولیجیم‘ کے ذریعے بھجیے گئے دو ناموں میں سے صرف ایک کی منظوری دی جبکہ دوسرا نام کولیجیم کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ ا س پر نظر ثانی کرے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر تقرری کے لیے جسٹس کے ایم جوزف موزوں نہیں ہیں کیوں کہ سینیارٹی میں کئی اور جج ان سے آگے ہیں اور یہ کہ عدالت عظمیٰ میں ان کی ریاست کی نمائندگی متوازن ہے ۔  جسٹس کے ایم جوزف کا نام کولیجیم نے ججوں کی تقرری کے لیے اپنے مسلمہ ضابطوں کے تحت ایک قابل جج کے طور پر بھیجا تھا۔ تقرری کے لیے دو ناموں کی سفارش بھیجی گئی تھی۔ حکومت ان سفارشات کو لے کر تین مہینے بیٹھی رہی اور جب منظوری دی تو صرف ایک ہی نام جج کی تقرری کے لیے منظور کیا۔

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے جسٹس کے ایم جوزف کا نام اس لیے منظور نہیں کیا کیونکہ جب وہ اترا کھنڈ کے چیف جسٹس تھے تو انھوں نے ریاست میں مودی حکومت کے ذریعے لگائے گئے صدر راج کو غیر آئینی قرار دے کر کانگریس کی حکومت کو بحال کرنے حکم دیا تھا جبکہ حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔ ماہرین قانون اور سبکدوش ججوں کا خیال ہے کہ ججوں کی تقرری کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی کولیجیم کی سفارشات حتمی ہیں اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن کئی ججوں کے نام پر حکومت کو کچھ اعتراضات ہو سکتے ہیں اور وہ کولیجیم میں اپنے تحفظات پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ناموں کو رد کرنا عدلیہ کی آزادی کے سلسلے میں کئی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ کئی ماہرین قانون اور ججوں نے رائے دی ہے کہ چیف جسٹس کو اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔

ججز کی تقرری کے سوال پر حکومت اور کولیجیم میں یہ ٹکراؤ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 31 ججوں کی جگہیں ہیں جن میں اس وقت 24 جج ہیں۔ سات جگہیں خالی پڑی ہیں۔ اس برس کے آخر تک مزید پانچ جج سبکدوش ہو جائيں گے۔ ملک کی ہائی کورٹس میں 400 سے زیادہ ججوں کی جگہیں خالی پڑی ہیں۔ یہ صورت حال ان حالات میں ہے جب مقدمات کی سماعت اور فیصلے کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کی ذیلی عدالتوں میں کروڑوں مقدمات التوا میں پڑے ہو ئے ہیں۔ مقدمات برسوں تک چلتے رہتے ہیں۔ انصاف کا عمل عام آدمی کی رسائی سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

قانونی ماہرین کا خیال ہے ججوں کی تقرری سے لے کر عدالتوں کے طریقۂ کار تک ہر پہلو میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کی عدالتوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ عدلیہ ابھی تک اپنی خود مختاری اور آزادی کا پوری طاقت اور سختی کے ساتھ دفاع کرتی آئی ہے۔ عدلیہ ملک کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جن پر لوگوں کا اب بھی پورا اعتبار ہے۔ اس کی آزادی اور غیر جانبداری کے تحفظ کی ذمے داری صرف عدلیہ کی ہی نہیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ ایک فعال اور متحرک جمہوریت کی ضامن ہے۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
 

بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں تارکین وطن کا کیا بنے گا ؟

$
0
0

’ونڈ رش اسکینڈل‘ میں کئی تارکین وطن کو غلط طریقے سے ملک بدر کیے جانے کے بعد برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا رہا۔ برطانیہ میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی کے خدوخال کیسے ہوں گے۔ سن 1948 میں دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ نے ویسٹ انڈیز سے کئی ’گیسٹ ورکرز‘ بلائے تھے۔ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ان مہمان مزدوروں کے اہل خانہ کو ملک بدر کیے جانے کے بعد لندن حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد ازاں برطانیہ نے ’ونڈ رش اسکینڈل‘ سے متاثر افراد سے معذرت کرتے ہوئے انہیں برطانوی پاسپورٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

’معاندانہ ماحول‘ کا ایجنڈا
مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’مائگرینٹ وائس‘ سے تعلق رکھنے والے نازک رمضان سمیت کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ونڈ رش اسکینڈل برطانوی حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف روا رکھے گئے ’معاندانہ ماحول‘ کا نتیجہ ہے۔ رمضان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی سن 2013 میں اختیار کی گئی تھی اور اس وقت موجودہ وزیر اعظم ٹریزا مے ملکی وزیر داخلہ تھیں۔ تب انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ تارکین وطن کے خلاف اس سخت پالیسی کا مقصد ’غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف انتہائی مشکل ماحول پیدا کرنا ہے‘۔

یورپی یونین سے اخراج اور مہاجرت
یورپی یونین سے برطانوی اخراج کا عمل انتیس مارچ سن 2019 تک مکمل ہو جائے گا۔ بریگزٹ کے حامیوں کی خواہش ہے کہ لندن حکومت مہاجرت کے خلاف مزید سخت پالیسی اپنائے۔ دوسری جانب کاروباری حلقوں کو خطرہ ہے کہ ہنرمند تارکین وطن کو ملازمتیں فراہم کرنے میں مشکلات کے باعث ان کے کاروبار متاثر ہوں گے۔ مہاجرت سے متعلق برطانوی وزیر کیرولین نوکس کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے بعد کے دور کے لیے نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان رواں برس موسم خزاں میں کر دیا جائے گا۔

'صورت حال ویسی ہی رہے گی‘
بریگزٹ سے سب سے زیادہ متاثر برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے شہری ہوں گے جب کہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر بریگزٹ کے براہ راست اثرات مرتب ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔

کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ مہاجرت کے امور کے ماہر پروفیسر الیگزنڈر بیٹس بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ 

ان کے مطابق برطانیہ پہلے ہی آزادانہ نقل و حرکت کے یورپی خطے، یعنی شینگن، کا حصہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے برطانیہ گزشتہ برسوں کے دوران یورپ میں مہاجرین کے بحران سے بھی دیگر یورپی ممالک کی نسبت بہت کم متاثر ہوا تھا۔ پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد فرانسیسی ساحلی شہر کیلے میں چینل ٹنل کے راستے فرانس سے برطانیہ پہنچی تھی۔ برطانیہ اور فرانس کے مابین ایک تازہ معاہدے کے مطابق چینل ٹنل پر سکیورٹی انتظامات بڑھائے جا رہے ہیں اور برطانیہ فرانسیسی سرزمین پر ہی بارڈر کنٹرول کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ فرانس اور برطانیہ کے مابین ہے اور یہ بھی بریگزٹ سے متاثر نہیں ہو گا۔

عالمی قوانین کی پاسداری، لیکن پالیسی سخت
برطانیہ یورپی یونین میں مہاجرین کی تقسیم کے منصوبہ کا حصہ بھی نہیں بنا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے ساتھ معاہدے کے تحت برطانیہ نے سن 2020 تک بیس ہزار شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسی طرح کم عمر تارکین وطن کو پناہ دینے کے بارے میں بھی برطانیہ اسی عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کے عالمی معاہدوں کی پاسداری بریگزٹ کے بعد بھی جاری رکھے گا۔ تاہم رمضان اور پرفیسر بیٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر یورپی پناہ گزینوں پر بریگزٹ کے بلواسطہ اثرات ضرور مرتب ہو سکتے ہیں۔ دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی مزید سخت کر دی جائے گی۔

برطانیہ میں سیاسی پناہ سے متعلق اعداد و شمار
برطانیہ کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق ستمبر 2017ء سے قبل کے بارہ ماہ کے دوران ’نیٹ امیگریشن‘ دو لاکھ چوالیس ہزار رہی۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ عرصے کے مقابلے میں تو کم ہے لیکن لندن حکومت کا ہدف تھا کہ اسے ایک لاکھ تک محدود کر دیا جائے۔ سن 2017 میں پندرہ ہزار سے زائد افراد کو مختلف حیثیتوں میں پناہ دی گئی۔ پانچ ہزار سے زائد افراد کو فیملی ری یونین ویزے بھی دیے گئے جو کہ اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم تھے۔
اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں تینتیس ہزار سے زائد افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، اس کے مقابلے میں اس دوران جرمنی میں دو لاکھ، اٹلی میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اور فرانس میں ایک لاکھ افراد نے پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر افراد کا تعلق ایران، پاکستان اور عراق سے تھا۔

 (ماریون میک گریگر- انفو مائگرینٹس)

بشکریہ DW اردو
 

بیس سال سے زیر نمائش مشہور فرانسیسی مصور کے 82 فن پارے جعلی نکلے

$
0
0

فرانس کے ایک عجائب گھر میں مصور ایچن تیرس کی نمائش کے لیے رکھے گئے 82 فن پارے جعلی نکلے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس کے شہر ایلنئے میں مصور ایچن تیرس کے نام سے منسوب عجائب گھر میں مصور کے فن پاروں کو اصل سمجھ کر نمائش کے لیے رکھا ہوا تھا لیکن بعد ازاں ایک تاریخ دان نے یہ انکشاف کیا کہ ان میں سے آدھی پینٹنگز جعلی ہیں اور یہ تخلیق مصور ایچن تیرس کی نہیں بلکہ کسی اور مصور کی ہیں۔ جعلی فن پاروں کی قیمت ایک لاکھ 60 ہزار سے ایک لاکھ 40 ہزار یورو کے درمیان ہے جنہیں ایلنئے کونسل نے 20 سال قبل خریدا تھا۔

عجائب گھر کی انتظامیہ نے تاریخ دان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان فن پاروں کی نمائش جاری رکھی جب کے نمائش دیکھنے والے مداح بھی اس چوری کو پکڑ نہیں سکے یہاں تک کے مصوری کے ماہر ایرک فورکاڈا نے بھی عجائب گھر سے رابطہ کر کے فن پاروں کی اصلیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس کے بعد انتظامیہ نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جنھوں نے پیٹنگز کا مشاہدہ کر کے بتایا کہ فن پاروں میں سے 82 پینٹنگز مصور ایچن تیرس کے ہاتھوں کی تخلیق نہیں ہیں۔ عجائب گھر کے انتظامی سربراہ اور شہر کے میئر نے ایچن تیرس کے مداحوں سے معافی مانگتے ہوئے صورت حال کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھوکا دہی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور مداحوں کے دل توڑنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے گا تاکہ دوبارہ سے ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہو۔
 


امریکا، چین اقتصادی جنگ کے عالمی تجارت پر اثرات

$
0
0

ایک دور تھا جب دنیا بھر میں اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور دنیا دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھی۔ اس وقت ایک مرد قلندر سید ابولاعلی مودودی نے کہا تھا کہ ’’ایک دور آئے گا جب اشتراکیت کو ماسکو اور سرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن میں پناہ نہ ملے گی‘‘۔ اشتراکیت تو سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی زمین بوس ہو گیا اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کو واحد معاشی نظام کے طور پر قبول کر لیا گیا لیکن 2008ء میں آنے والے مالیاتی بحران نے سرمایہ داری کے ستونوں پر لرزہ طاری کر دیا اور اس میں دراڑ پڑنی شروع ہو گئیں۔

پھر چین دنیا کی اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھرنے لگا اور رفتہ رفتہ یورپ و امریکا کی مارکیٹوں پر چھا گیا۔ وال مارٹ جیسا امریکی ادارہ چینی اشیا سے بھر گیا اور امریکی چینی اشیا کے ایسے ہی عادی ہو گئے جیسے کسی زمانے میں گراں خواب چینی افیون کے عادی تھے۔ ایک امریکی اوسطاً روزانہ دس چینی اشیا استعمال کرتا ہے۔ وہ صبح اُٹھ کر جس بلیڈ سے شیو کرتا ہے وہ چینی ہوتا ہے، ناشتے کی میز پر کراکری سمیت متعدد اشیا چینی، دفتر میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری و دیگر سامان چینی، باتھ روم میں استعمال ہونے والے سامان چینی۔ اس صورت حال نے امریکیوں کو شدید پریشانی کا شکار کر دیا۔ کوئی صورت ایسی نظر نہیں آرہی تھی جس سے چینی اشیا سے چھٹکارے کی کوئی تدبیر کار آمد ہو سکے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عالمی اقتصادی شطرنج کی بساط پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھنے اور آزاد تجارت کے تصور کو متعارف کرانے والے ممالک اب اس سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں کیوں کہ چین کے اقتصادی ہتھیاروں یعنی کم قیمت، بہتر معیار، مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کا توڑ امریکا اور مغربی ممالک کے پاس نہیں۔ چناں چہ جس جمہوریت، دنیا بھر سے ٹیلنٹ، صلاحیت، قابلیت کو اپنے اپنے ملکوں میں سمیٹنے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھانے کی بدولت مغرب و امریکا نے ترقی کی معراج پائی اسی جمہوریت کا سہارا لے کر امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسند کو اپنا قائد منتخب کیا۔

اس طرح بھارت اور امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں دونوں ممالک نے انتہا پسندوں کو اقتدار کا راستہ دکھا کر دنیا کے امن کو خطرات سے دو چار کر دیا۔ امریکا میں اب تاریک وطن کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے، برطانیہ نے بریگزٹ کی راہ اپنالی ہے، مغرب کے متعدد ممالک میں قوم پرستی کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، گورے اور کالے، امیر و غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ 5 اپریل 2018ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو چینی برآمدات پر اضافی ٹیرف میں ایک سو ارب ڈالر کے تازیانے کی دھمکی دی۔ اس سے صرف ایک دن قبل ٹرمپ انتظامیہ نے 50 ارب ڈالر کی چینی برآمدات پر تادیبی ٹیکس کے اپنے منصوبے کا آغاز کیا۔ 

جس طرح پاکستان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا یہ اور بات ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد ’’سب سے پہلے وہ پاکستان سے رخصت ہوئے‘‘ اور ان کے درآمد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز کی طرح وہ آج بھی ملک سے باہر ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی سب سے ’’پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بلند کر کے چین کے ساتھ اقتصادی جنگ چھیڑ دی۔ اس سے قبل 2018ء کے آغاز میں 22 جنوری کو امریکا نے بڑے پیمانے پر چینی درآمد شدہ شمسی سامان اور واشنگ مشینوں پر ٹیرف کا اعلان کر کے اس جنگ کا عندیہ دے دیا تھا۔ 

پھر چین نے 4 فروری کو جانوروں کی خوراک پر اینٹی ڈمپنگ کی تحقیق کا آغاز کیا۔ 8 فروری کو چین کے اعلیٰ سفارت کاروں سے تجارتی جنگ روکنے کے لیے واشنگٹن کا سفر کیا لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ 2 مارچ کو امریکا نے ایلومینیم کی درآمدات پر تادیبی ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کیا جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کو کاروباری حلقوں اور اقتصادی ماہرین نے آگ سے کھیلنے سے مشابہت دی۔ لہٰذا 6 مارچ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتصادی مشیر کرے کوھن نے استعفا دیتے ہوئے اس آگ سے اپنے دامن کو بچانے ہی میں عافیت محسوس کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے مضمرات کو عالمی سطح پر بھی محسوس کیا گیا، عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او نے 13 اپریل کو خبردار کیا کہ ٹرمپ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کاروباری کشیدگی چین اور یورپی یونین جیسے اہم امریکی کاروباری شراکت داروں پر پہلے ہی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسچین لگارڈ نے 12 پریل کو کہا کہ عالمی معیشت پر گہرے بادل چھا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے عالمی مالیاتی مارکیٹوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ چین نے جوابی کارروائی کے طور پر امریکی اسٹیل ہارٹس، تازہ پھلوں اور شراب پر پندرہ فی صد پورک پر 25 فی صد ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کیا اور اس اقتصادی جنگ کے اثرات مختلف اسٹاک مارکیٹوں پر پڑنے شروع ہوئے اور جاپان، جرمنی سمیت متعدد ممالک کی اسٹاک مارکیٹس کے انڈیکس میں کمی آئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اقدامات چین کی عالمی اقتصادی اُفق پر بڑھتی ہوئی پیش رفت کو روکنے کے علاوہ پنسلونیا میں انتخابات جیتنا بھی مقصد تھا جو امریکا کی اسٹیل کی پیداوار کا بڑا مرکز ہے۔ کیا امریکا اس اقتصادی جنگ کو جیت جائے گا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے، عالمی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی اقتصادی پیش رفت اس قدر وسیع، ہمہ گیر اور توانا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں اس کے قدم نہیں روک سکتیں۔ خود ٹرمپ اپنے ٹویٹ میں اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوئے اور کہا کہ ہماری تجارتی جنگ چین سے نہیں ہے۔ یہ جنگ ہم برسوں پہلے نااہل لوگوں کے باعث ہار چکے ہیں۔

اب امریکا کو ہر سال 500 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا چین کا 170 ارب ڈالر کا مقروض ہے جب کہ 2016ء میں اسے چین کے ساتھ 342 ارب ڈالر اور 2017ء میں یہ خسارہ بڑھ کر 566 ارب ڈالر ہو گیا۔ امریکا اور چین کی اقتصادی جنگ، تارکین وطن کے خلاف امریکا و مغرب میں بڑھتی ہوئی نفرت، گورے کالے اور امیر و غریب میں بڑھتے ہوئے فرق، افغانستان، شام، فلسطین و کشمیر میں جاری خونریزی اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ موجودہ عالمی سیاسی و اقتصادی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ 

انسانوں کے درمیان نفرتوں کی بڑھتی ہوئی خلیج، تہذیبوں کے تصادم اور عالمی اقتصادی جنگ کو روکنے کے لیے اسلام کے نظام اخوت، انسانی بھائی چارے اور اسلامی معیشت کے رہنما اصولوں کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اسلامی ممالک اس کی ابتدا کر کے مغرب اور امریکا کو رول ماڈل فراہم کریں تو دنیا کے دیگر ممالک بھی اس نظام کی افادیت کے قائل ہو جائیں گے۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ کمیونزم کی ماسکو بدری کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام اور آزاد تجارت کا تصور واشنگٹن سے رخصتی کے لیے پَر تول رہا ہے اور جنگ عظیم اوّل و دوئم کی خونخوار قوم پرستی کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر سید محبوب
 

’’گوگل‘‘ : کامیابی کے سفر کی دلچسپ کہانی

$
0
0

گوگل کی بنیاد امریکی ’’لیری پیج‘‘ اور روسی نژاد امریکی ’’سرگے برن‘‘ نے رکھی۔ دونوں سٹین فورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا میں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے۔ جنوری 1996ء میں انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی منصوبے کے تحت ایک ’’ویب سرچ انجن‘‘ بنایا۔ اس منصوبے کو بیک رب (BackRub) کا نام دیا۔ ایک سال سے زائد عرصہ تک بیک رب سٹین فورڈ یونیورسٹی کے سرور پر ہی چلتا رہا۔ 15 ستمبر 1997ء کو اسے گوگل ڈاٹ کام پر منتقل کر دیا گیا۔ گوگل کو سب سے پہلا فنڈ اگست 1998ء میں ایک لاکھ ڈالر کا ملا، جو کہ ’’سن مائیکرو سسٹمز‘‘ کے شریک بانی اینڈی نے دیا۔ اس کے بعد 4 ستمبر 1998ء کو باقاعدہ گوگل کمپنی کیلیفورنیا میں رجسٹرڈ ہوئی۔

شروع 1999ء میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب گوگل کے بانیوں (لیری اور سرگے) کو محسوس ہوا کہ گوگل ان کا بہت زیادہ وقت لے رہا ہے اور اس سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے گوگل بیچنے کا سوچا اور ’’ایکسائیٹ‘‘ کے چیئرمین جارج بل کو دس لاکھ ڈالر کے عوض گوگل فروخت کرنے کی پیشکش کی، مگر جارج نے یہ سودا ٹھکرا دیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد 7 جون 1999ء کو چند بڑے سرمایہ کاروں اور دو ’’ونچر کیپیٹل فرمز‘‘ کی طرف سے گوگل کے لئے 25 ملین ڈالر کی مرحلہ وار سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ یہ سرمایہ کاری گوگل کے لئے اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔

اس کے بعد گوگل نے ایسے ترقی کی کہ پہلے جو کمپنی خود فروخت ہو رہی تھی اب وہ دوسری کمپنیوں کو خریدنے لگی۔ گوگل (Google) کا نام لفظ Googol کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ Googol ایک بہت بڑے عدد کو کہتے ہیں۔ ایسا عدد جس میں ایک کے ساتھ سو صفر لگتے ہیں یعنی دس کی طاقت سو۔ لفظ گوگل بنا تو Googol سے ہی ہے مگر اس بننے کے متعلق کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ گوگل میں سب سے پہلے سرمایہ کاری کرنے والے نے لیری اور سرگے کو جو پہلا چیک دیا اس پر اس نے غلطی سے Googol کی بجائے Google لکھ دیا تھا۔ چیک درست کرانے کی بجائے لیری اور سرگے نے Google کو ہی بہتر جانا اور اسی نام سے کمپنی رجسٹرڈ کرا لی۔ 

ایک کہانی یہ بھی سننے کو ملتی ہے کہ جب ویب سائیٹ کا نام (ڈومین نیم) رجسٹر کرانے لگے تو نام ٹائیپ کرنے والے نے غلط سپیلنگ لکھ دیئے۔ جس پر لیری نے کہا کہ ’’پاگل! تم نے سپیلنگ غلط لکھ دیئے ہیں مگر کوئی بات نہیں کیونکہ Googol.com پہلے سے ہی رجسٹر ہے اور ہمیں نہیں مل سکتا۔ اس لئے Google.com ہی بہتر ہے۔‘‘ خیر نام رکھنے کے متعلق اول الذکر بات میں صداقت نظر نہیں آتی کیونکہ googol.com ویب سائیٹ 1995ء سے ہی رجسٹر تھی۔ اب ایک کمپنی جس کی بنیاد ہی انٹرنیٹ ہو تو اس کمپنی کے نام کی ویب سائیٹ ملنا سب سے پہلی بات ہوتی ہے۔ 

یقینا گوگل کے بانیوں نے بھی ویب سائیٹ ملنے نہ ملنے کی بنیاد پر نام رکھنا تھا۔ ویسے مؤخر الذکر کہانی میں کچھ کچھ صداقت معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لیری اور سرگے نام تو Googol ہی رکھنا چاہتے تھے مگر جب انہیں معلوم ہوا ہے کہ اس نام کی ویب سائیٹ پہلے سے رجسٹر ہو چکی ہے تو انہوں نے اس کے سپیلنگ میں تبدیلی کر کے Google کر لیا۔ ویسے نام کے متعلق گوگل نے اپنی ویب سائیٹ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ نام لفظ Googol کی بنیاد پر اس لفظ میں ترمیم کر کے Google رکھا گیا۔

فواد حسن


 

گدھ۔ ، جس کی نسل اب ختم ہوتی جا رہی ہے

$
0
0

گدھ کو انگریزی میں ولچر کہتے ہیں۔ یہ مردہ خور پرندہ ہے جو بلند پرواز بھی کرتا ہے۔ گدھ کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروپ میں کیلی فورنیا اور انڈین کانڈرس گدھ کو رکھا گیا ہے۔ اولذکر گروپ شمالی اور جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے جبکہ آخری گروپ جسے اولڈ ورلڈ ولچر سے موسوم کیا گیا ہے یورپ ، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں پایا جاتا ہے یہ ہندوستان کے ریگستانی، صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مردار خور گدھ کی چونچ موٹی سخت اور سامنے مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ چونچ کے اوپر سانس لینے کیلئے دونوں جانب سوراخ ہوتے ہیں۔ 

مردار خور گدھ کا سر بھی ہوتا ہے سر کے کسی قدر نیچے کی جانب دونوں طرف آنکھیں ہوتی ہیں جو دو الگ اطراف میں دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ ایک شکاری پرندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عموماً صحت مند جانوروں پر حملہ یا شکار نہیں کرتے بلکہ بیمار اور لاغر جانوروں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ گدھ کے پر بڑے ہوتے ہیں جو بلندی سے اترنے میں مدد کرتے ہیں۔ ان میں سونگھنے کی صلاحیت یعنی قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ گروپ کی شکل میں غذا کھاتے ہیں جب کسی جانور کی نعش دکھائی دیتی ہے تب گدھ کا جھنڈ وہاں اتر پڑتا ہے۔ 

یہ ایک ایسا پرندہ ہے جو مردار کے اندورنی اعضاء جیسے آنت ، جگر اور دل بھی شوق سے کھاتا ہے۔ اس پرندے کو بلندی پر مردار کی بو پہنچ جاتی ہے۔ جو کہ اس کے سونگھنے کی ایک بہترین صلاحیت ہے۔ جب گدھ غذا کھا لیتا ہے تو اسے ہضم کرنے کے لئے سو جاتا ہے یا نیم خوابیدہ حالت میں رہتا ہے۔ گدھ کو صفائی کرنے والا پرندہ کہا جاتا ہے یعنی جنگلوں میں مردار جانوروں کو یہ پرندے تھوڑی دیر میں ہی چٹ کر جاتے ہیں۔ گدھ کی نسل اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان پرندوں کی بقاء کے لئے محکمہ جنگلات جہدو جہد میں مصروف ہے ۔

ابراہیم احمد


 

کہاں کوریا اور کہاں ہم لوگ

$
0
0

چار دن سے میں سوشل میڈیا پر پڑھ پڑھ کے اوبھ گیا ہوں کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں فاتح سوویت یونین اور امریکا کی بٹر نائف کے ذریعے جزیرہ نما کوریا کی دو حصوں میں تقسیم، اس تقسیم کے نتیجے میں بڑھنے والی دو طرفہ غلط فہمیوں اور ایک دوسرے کو بزور طاقت متحد کرنے کے شبہے میں انیس سو پچاس سے تریپن تک ہونے والی خونریز جنگ میں دس لاکھ کوریائیوں کی ہلاکت، اور بعد کے پینسٹھ برس میں ایک دوسرے کو نیست و نابود اور جلا کر راکھ کردینے کی ان گنت دھمکیوں، دونوں کوریاؤں کو تہتر برس سے بانٹنے والی خارداری لکیر (اڑتیس عرض البلد) کے دونوں طرف کے ایک ایک انچ پر سپاہیوں کے پہرے اور لاؤڈ اسپیکرزکے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف نظریاتی تبلیغ اور جوش و غصہ دلانے والے گیتوں کی دن رات کان پھاڑ آواز کے بعد بھی اگر شمالی کوریا کے رہنما کم یونگ ان اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دشمنی کا لامتناہی سلسلہ ختم کرنے کے لیے ایک نہ ایک دن کیمروں کے سامنے ہاتھ تو ملانا ہی پڑتا ہے تو پھر انڈیا پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔

خواہشات اپنی جگہ مگر کوریا کی مثال پاک بھارت تعلقات پر فٹ نہیں بیٹھتی۔ اس بارے میں خامخواہ آس امید کی دلدل میں غوطے کھانے سے خود کو نہ تھکانا زیادہ بہتر ہے۔ سبب یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کو دو الگ الگ خودمختار ممالک کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اور ان میں سے کسی ملک کا دوسرے ملک پر کوئی ملکیتی دعویٰ نہیں۔ جب کہ کوریا کے دونوں حصے خود کو پورے جزیرہ نما کی قانونی حکومت سمجھتے ہیں۔ ان کی مثال دوسری عالمی جنگ کے بطن سے پیدا ہونے والے مشرقی اور مغربی جرمنی جیسی ہے۔ جنھیں سرد جنگ کی ضرورتوں نے الگ الگ خانوں میں رکھا اور جیسے ہی سوویت یونین ٹوٹنے کے عمل میں سرد جنگ کی اٹھائی دیوار میں شگاف پیدا ہوا تو دونوں حصوں نے پہلی فرصت میں خود کو ایک متحدہ جرمنی میں ڈھال لیا۔ شمالی و جنوبی کوریا بھی یہی چاہتے ہیں۔ پہلے طاقت کے بل پر اب شائد بات چیت کے بل پر۔

جس دن بھی دونوں کوریاؤں نے متحد ہونے کا سنجیدگی سے فیصلہ کیا اس دن مرحلہ وار روڈ میپ پر بھی کام شروع ہو جائے گا۔ کام آسان نہ ہو گا۔ کیونکہ دونوں خطوں کی موجودہ نسل الگ الگ نظریاتی سانچوں میں ڈھلی ہے۔ معاشی فرق بہت زیادہ ہے۔ لہذا اتحاد کے بعد بھی ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے ایک اور نسل تک کا سفر درکار ہے۔ وہ بھی اس شرط پہ اگر کوریا کی سابق نوآبادیاتی طاقت جاپان (جس نے انیس سو دس سے انیس سو پینتالیس تک کوریا کو اپنی کالونی بنا کے رکھا ) ، کوریا کی تقسیم کرنے والی فاتح طاقتیں امریکا اور روس اور شمالی کوریا کے روایئتی اتحادی چین نے کوریائی اتحاد کو اپنے الگ الگ مفادات کے لیے شطرنج کی علاقائی بساط میں تبدیل کرنے اور مشرقِ بعید کا افغانستان بنانے کی کوشش نہ کی۔

فی الحال تو دونوں کوریاؤں کا زور اس پر ہے کہ جزیرہ نما ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دے دیا جائے۔ اگر شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے مشروط یا غیر مشروط انداز میں دستبردار ہونے پر آمادہ ہو گیا تو پھر جنوبی کوریا بھی امریکی فوجوں کی اپنے ملک سے واپسی کا مطالبہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
کوریا کے دونوں حصوں کے تعلقات معمول پر لانے کا موازنہ بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات و حالات سے کرنا اس لیے بھی درست نہ ہو گا کیونکہ بھارت اور پاکستان کے برعکس شمالی کوریا کے کیمونسٹ اور جنوبی کوریا کے سرمایہ دارانہ ریاستی نظریے اور معاشی ترقی کے فرق کے باوجود دونوں کوریاؤں کی زبان، نسل، رنگ ، مذہبی رجحانات ، کھانا پینا اور تاریخ اپنے خمیر میں ایک ہی جیسی ہے۔ سوچئے اگر شمالی کوریا میں مسلمان اور جنوبی کوریا میں ہندو اکثریت ہوتی تو آج دو ہزار اٹھارہ کی دنیا میں تہتر برس پرانی تقسیم کو لے کر وہ ایک دوسرے کے بارے میں کس طرح سوچ رہے ہوتے ؟

اس کے علاوہ طبیعت اور نفسیات میں بھی نمایاں فرق ہے۔ کورینز کی ناک ایسی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے آسانی سے ملا سکتے ہیں۔ جب کہ بھارت اور پاکستان کی ناکیں اتنی لمبی ہیں کہ کٹ تو سکتی ہیں مل نہیں سکتیں، ٹوٹ سکتی ہیں پر نیچی نہیں ہو سکتیں۔ کورینز میں بہت زیادہ مونچھیں رکھنے کا بھی رواج نہیں لہذا ان کی زبان میں شائد مونچھ اونچی اور نیچی کرنے کا محاورہ نہ ہو اور وہ باآسانی تعلقات کا پلِ صراط عبور کر پائیں۔ اس کے برعکس اپنے ہاں تو سرحد کے دونوں طرف بھلے عسکری پالیسی ہو کہ خارجہ پالیسی، دونوں کی دونوں تاؤ زدہ مونچھوں سے لٹکی ہوئی ہیں اور بیچ میں کشمیر کا پتھر الگ سے گڑا ہوا ہے۔

تو کیا اتنی لمبی ناکوں اور کڑکیلی مونچھوں کے باوجود ہم دو نارمل ممالک کی طرح نہیں رہ سکتے ؟ جیسے چین اور جاپان ، جیسے فرانس اور جرمنی ، جیسے امریکا اور ویتنام یا امریکا اور کیوبا۔ ہم بالکل نارمل انداز میں رہ سکتے ہیں مگر کیوں رہیں ؟ اس کے بعد زندگی میں بوریت کے سوا کیا بچے گا۔ باقی دنیا اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا۔ ویسے بھی غالب بھارت اور پاکستان کی مشترکہ میراث ہے اور غالب نے کورینز کے لیے نہیں اپنے آجو باجو والوں کے بارے میں ہی فرمایا ہے کہ

چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل عداوت ہی سہی

کورینز کا تو صرف ایک مسئلہ ہے یعنی اوپر سے تھوپی گئی تقسیم۔ ہمارے پاس تو ایک سے بڑھ کر ایک خونی سرحدی و تاریخی شخشخا اور پنج شاخہ ہے ، ایٹمی ہتھیار ہیں ، اکھنڈتا کا جن سنگھی نظریہ ہے، بھارت فتح کرنے کا جہادی نظریہ ہے، را ہے، آئی ایس آئی ہے، افغانستان کی شطرنج ہے، وہاگہ اٹاری سرحد پر ہر شام منعقد ہونے والی جناتی دھمک سے لتھڑی گھورم گھاری والی سینہ و مکہ تانی پریڈ ہے۔ خدانخواستہ کہیں مسائل واقعی حل نہ شروع ہونے ہو جائیں، اس نوبت سے بچنے کے لیے سیول اور پیانگ یانگ کے برعکس دلی اور اسلام آباد کے پاس ایک دوسرے سے ملاقات نہ کرنے کے سو بہانے ہر وقت تیار ہیں، طنز کے زہریلے تیر ترکش میں بھرے رہتے ہیں، اپنی اپنی موجودہ اور اگلی نسلوں کو الو بنانے کے لیے نقلی یا ملاوٹی تاریخ اور قصے گھڑنے والی بیسیوں دانشورانہ فیکٹریاں ہیں۔ ان میں سے کئی تو تین تین شفٹوں میں چلتی ہیں۔ کورینز کے پاس کیا ہے ؟ لکیر کے آرپار پتھرائی آنکھوں والی بوڑھی ماؤں ، باپوں ، قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے اپنے سرحد پار بھائیوں، بیٹیوں یا لگڑ پوتوں کی ایک جھلک دیکھنے کی حسرت کے سوا ؟ لہذا کہاں کورینز کہاں ہم۔ ان کی دشمنی صنعتی سماج ہونے کے باوجود زرعی انداز کی ہے، ہماری دشمنی زرعی سماج ہونے کے باوجود صنعتی ہے۔

وسعت اللہ خان
 

تاریخ میں بچوں کی سب سے بڑی قربانی کی باقیات دریافت

$
0
0

لاطینی امریکی ملک پیرو کے شمال ساحلی علاقے میں ماہرین آثار قدیمہ کو ایک ایسی قبر ملی ہے، جس میں کم سے کم 140 بچوں اور وہاں کے ایک مقامی جانور کی باقیات ملی ہیں۔ اس دریافت کے حوالے سے ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر انسانی تاریخ میں بچوں کی سب سے بڑی قربانی کی باقیات ہوں گی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ شمالی پیرو کے شہر تروہلو کے قریب کی گئی کھدائی کے دوران ملنے والی اجتماعی قبر شموو تہذیب کے کھنڈرات سے ملی ہے۔ اس قبر میں کم سے کم 140 بچوں کی باقیات ملی ہیں، جن میں سے زیادہ تر بچوں کی عمروں کے حوالے سے خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی عمریں 12 سال کے درمیان ہوں گی، تاہم ان میں اس سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

ماہرین کے اندازوں کے مطابق بچوں کی یہ قربانی کم سے کم 550 سال قبل انسانی قربانی کے تہوار کے دن پر کی گئی ہو گی، تاہم اس حوالے سے مستند شواہد نہیں ملے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان بچوں کو شموو تہذیب کے لوگوں نے ہی قربان کیا ہو گا، جن کے ہاں ایسی رسومات رائج تھیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 یا 6 صدی قبل اس وقت لاطینی امریکا میں نہ صرف شموو بلکہ دیگر بڑی تہذیبوں یا بادشاہتوں میں بھی انسانی قربانی کرنے کی رسومات پائی جاتی تھیں۔ ماہرین کے مطابق کھدائی کے دوران اجتماعی قبر سے دریافت ہونے والی بچوں کی باقیات پر سرخ رنگت بھی موجود ہے، جس متعلق خیال ہے کہ وہ خون ہو گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی باقیات کے ابتدائی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں خاص مہارت یا رسم کے مطابق قربان کیا گیا۔ ماہرین نے بتایا کہ قبر سے بچوں کی باقیات کے علاوہ لاطینی امریکا کے جانور لاماز کی باقیات بھی پائی گئیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جانوروں اور انسانوں کو ایک ساتھ قربان کیا جاتا رہا۔ خیال رہے کہ پیرو میں سب سے پہلے 7 سال قبل 2011 میں ایک تاریخی عبادت گاہ کی کھدائی کے دوران بھی 40 انسانوں اور لاماز جانوروں کی باقیات ملی تھیں، جس کے بعد وہاں اس طرح کی تحقیقات کو مزید تیز کر دیا گیا تھا۔ سات سال قبل یہ بھی ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ انسانی قربانی سب سے پہلے لاطینی امریکا کے اس خطے میں شروع ہوئی، تاہم تاحال اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
 

Viewing all 4738 articles
Browse latest View live