Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live

US missile attack on Syria

$
0
0
The United States, France, and the United Kingdom carried out a series of military strikes, involving manned aircraft and ship-based missiles, against multiple government sites in Syria. The three western powers said they carried out the strikes in response to the alleged chemical weapons attack on Douma of eastern Ghouta on 7 April, which they attributed to the Syrian government. Syria denied involvement in the Douma attacks and called the airstrikes a violation of international law. 

On 7 April 2018, a suspected chemical attack was carried out in the Syrian city of Douma, with at least 70 people being reported as killed by the attack. Several medical, monitoring, and activist groups—including the White Helmets—reported that Syrian Army helicopters dropped barrel bombs on the city of Douma. The bombs were suspected to be filled with chemical munitions such as chlorine gas and sarin.

As with previous incidents, France, the United Kingdom, the United States, and other nations accused the Assad regime of being responsible for the use of chemical weapons. Russia and Iran, the Syrian government's main allies, denied that chemical weapons had been used, claiming the Douma attack was a false flag attack. Russia has alleged that video of the chemical attack had been staged by members of the White Helmets organization. In May 2017, French President Emmanuel Macron said the use of chemical weapons in Syria would be a red line which would require immediate reprisal. France and the United States cited positive urine and blood samples collected as proof of chlorine being used in Douma. In the early hours of 9 April 2018, an airstrike was conducted against Tiyas Military Airbase in Syria. comment.

On 10 April, an emergency UN Security Council meeting was held, where competing solutions on how to handle the response to the alleged chemical attack were presented and ultimately vetoed. By 11 April, each of the western nations began to consider military action in Syria seeking a "strong joint response." On 11 April, the Syrian government said it has invited Organization for the Prohibition of Chemical Weapons to investigate the sites of the alleged attacks. “Syria is keen on cooperating with the OPCW to uncover the truth behind the allegations that some western sides have been advertising to justify their aggressive intentions,” state news agency SANA said, quoting an official source in the Foreign Ministry. On 13 April, after initially denying the use of chemical weapons Russia alleged Britain "staged" the attack in order to provoke U.S. airstrikes.

The strikes were carried out by the forces of the United States, the United Kingdom and France. The strikes were delivered by ship-based cruise missiles as well as by aircraft. The British forces consisted of four Tornado GR4s armed with Storm Shadow missiles. The French frigate Aquitaine was involved in the strikes. The French Air Force also sent several warplanes. The US forces included B-1 bombers and at least one warship based in the Red Sea. The Tomahawks were fired from the guided missile destroyer USS Donald Cook (DDG-75) and an unspecified Ticonderoga-class cruiser. U.S. Secretary of Defense James Mattis said that twice as many weapons were used in the initial strike compared to the 2017 Shayrat missile strike. An anonymous US Defense Department official quoted by The Washington Post said that about 100 Tomahawk missiles were fired by the US. Syria responded using its air defense systems and its state media aired a video of missiles being fired into the sky. Syrian state news agency SANA, as well Colonel-General Sergei Rudskoi of the Russian military, claimed that the Syrian air defense systems Pantsir-S1, S-125, S-200, Buk, and Kvadrat intercepted and destroyed many missiles.

President Trump announced the strikes at 9PM 13 April ET (4AM 14 April in Syria) along with allies France and the United Kingdom. Explosions were heard in Damascus, the capital of Syria, just as Trump was speaking. U.S. Chairman of the Joint Chiefs of Staff Joseph Dunford said three sites were targeted: a research center in Damascus, a chemical weapons storage facility near Homs, and an equipment storage facility and command post also near Homs. The UK Ministry of Defence reported that British aircraft struck chemical weapons sites in Homs. Witnesses reported loud explosions and smoke in the capital Damascus in the early morning, including in the Barzeh neighborhood, the site of the Barzah scientific research centre, a major scientific research establishment. The Syrian Observatory for Human Rights said that attack sites included two scientific research centers in Damascus and another in the Homs area, as well as military bases in Damascus. 

Syrian state media said that Syria responded to the attacks by firing anti-aircraft weapons, and that its air defenses shot down 13 incoming missiles near Al-Kiswa, south of Damascus. The Russian military reported that Syria's air defenses shot down 71 out of 103 cruise missiles. The Syrian Observatory of Human Rights accounted for more than 65 missiles intercepted by the Syrian government and their allies. Missiles launched at Homs fell away from their target. No human losses were reported, but large material damage was reported.

Hundreds of Syrians in Damascus were seen protesting, denouncing the attack. Demonstrators were seen waving Iranian, Syrian and Russian flags while also shouting slogans of allegiance to President al-Assad. 



پینٹا گون چیف دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ سے بچائیں

$
0
0

پینٹاگون کو جاری کئے گئے ایک پیپر میں ڈینئل ایلسبرگ نے خبردار کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع جم میٹس سے کہا ہے کہ وہ ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے فوجی کاروائی کا آغاز کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حکم سے بچائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 50 برس کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ صورتحال جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی جانب جا رہی ہے ۔ پیپر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بااختیار شخص ہونے کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا غیر قانونی استعمال کر رہے ہیں۔

ایلسبرگ جو ایک سابق فوجی تجزیہ نگاربھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جوہری جنگ کا منصوبہ عالمی تباہی میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ پینٹاگون پیپر 3 بڑی جوہری طاقتیں امریکا ، برطانیہ اور فرانس کے بشارت الاسد کے خلاف اقدامات کرنے اور شام میں کیمیائی حملے کے بعد دیئے گئے ان بیانات کے بعد سامنے آئے ہیں ۔ الیسبرگ کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک بہت خطرناک وقت ہے ۔انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے شمالی کوریا پر کاروائی کرنے کے لفظی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ایک اور جوہری طاقت کو جنگ کی دھمکی دے چکے ہیں ۔ 

جب کہ 4 جوہری طاقتیں مل کر شام پر کاروائی کر رہی ہیں اور ان پر سیاسی دبائو بھی ہے ۔ ایلسبرگ نے میٹس پر زور دیا ہے کہ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کیلئے تیار رہنا چاہیئے ، تاہم میٹس کے سیکریٹری کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے اس قسم کے حکم کو اپرول کے بغیر نہیں مانا جائے گا اور مٹس ڈونلڈ ٹرمپ کو شام اور شمالی کوریا میں ایسے کسی اقدام سے روک لیں گے ۔
 

شام میں جنگ کیوں ہو رہی ہے؟

$
0
0

سات سال قبل شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف ہونے والے پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی جس میں اب تک اس میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور اس سے متعدد شہر اور قصبے تباہ ہو گئے ہیں۔

جنگ شروع کیسے ہوئی؟
لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کو صدر اسد کی حکومت سے بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھیں۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ مارچ 2011 میں جنوبی شہر دیرا میں پڑوسی عرب ملکوں کے 'عرب سپرنگ'سے متاثر ہو کر جمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑا۔ حکومت نے اسے کچلنے کے لیے مہلک طاقت کا استعمال کیا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہونے لگا جن میں صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

مظاہروں اور انھیں دبانے کے لیے طاقت میں شدت آتی گئی۔ حزبِ مخالف کے حامیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور انھیں پہلے اپنے دفاع اور بعد میں سکیورٹی فورسز سے لڑنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ بشار الاسد نے کہا کہ مظاہرے 'بیرونی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی'ہے، اور عزم کیا کہ وہ انھیں کچل کر رہیں گے۔ تشدد پھیلتا چلا گیا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔


کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں؟
برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے شام میں موجود ذرائع نے مارچ 2018 تک شام میں 353,900 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جن میں 106,000 عام شہری ہیں۔ اس تعداد میں وہ 56,900 افراد شامل نہیں ہیں جو یا تو غائب ہیں یا پھر ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ اسی دوران خلاف ورزیوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے وی ڈی سی نے شام میں اپنے ذرائع کی مدد سے بین الاقوامی انسانی قانون کی متعدد خلاف ورزیوں کی خبر دی ہے۔ اس نے فروری 2018 تک جنگ میں 185,980 افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے جن میں 119,200 عام شہری شامل ہیں۔

جنگ کیوں لڑی جا رہی ہے؟
بہت جلد جنگ صرف بشار الاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان محدود نہیں رہی۔ اس میں متعدد تنظیمیں اور متعدد ملک ملوث ہو گئے جن میں ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ ایک طرف مذہبی جنگ ہو رہی ہے، جس میں سنی اکثریت صدر اسد کی علوی شیعہ اقلیت سے نبردآزما ہے۔ دوسری طرف ملک کے اندر بدامنی سے دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کو وہاں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔
شام میں رہنے والے کرد الگ ہیں جو سرکاری فوج سے تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔

شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ امریکہ، ترکی اور سعودی عرب باغیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ روس نے شام میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں اور اس نے 2015 سے بشار الاسد کی حمایت میں فضائی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے پانسہ اسد کی حمایت میں پلٹ گیا ہے۔ روسی فوج کا کہنا ہے کہ وہ صرف 'دہشت گردوں'کو نشانہ بناتی ہے، لیکن امدادی کارکنوں کے مطابق وہ حکومت مخالف تنظیموں اور شہریوں پر بھی حملے کرتی ہیں۔

دوسری طرف ایران کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے سینکڑوں فوجی شام میں سرگرمِ عمل ہیں اور وہ صدر اسد کی حمایت میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ایران ہزاروں شیعہ جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے۔ زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق لبنان کی حزب اللہ سے ہے، لیکن ان میں عراق، افغانستان اور یمن کے شیعہ بھی شامل ہیں۔ یہ سب شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے باغیوں کو مختلف قسم کی مدد فراہم کی ہے۔ ایک بین الاقوامی اتحادی فوج 2014 سے شام میں دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہے۔ ان کی وجہ سے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نامی باغی دھڑے کو بعض علاقوں پر تسلط قائم کرنے میں مدد ملی ہے۔

ترکی ایک عرصے سے باغیوں کی مدد کر رہا ہے لیکن اس کی توجہ کا مرکز کرد ملیشیا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ اس کا تعلق ترکی کی ممنوعہ باغی تنظیم پی کے کے سے ہے۔ سعودی عرب کو فکر ہے کہ شام میں ایران اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، اس لیے وہ باغیوں کو اسلحہ اور پیسہ دے رہا ہے۔ اسرائیل کو تشویش ہے کہ حزب اللہ کو ملنے والا اسلحہ اس کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، اس لیے وہ بھی شام میں حملے کر رہا ہے۔

شامی عوام کے مصائب
جنگ کی وجہ سے لاکھوں اموات کے علاوہ کم از کم 15 لاکھ شامی مستقل معذروی کا شکار ہوئے ہیں، جب کہ 86 ہزار افراد ایسے ہیں جن کا کوئی عضو ضائع ہوا ہے۔ بےگھر ہونے والوں کی کل تعداد 61 لاکھ ہے جب کہ 56 لاکھ دوسرے ملکوں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

موجودہ زمینی صورتِ حال
حکومت نے ملک کے اکثر بڑے شہروں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر ایس ڈی ایف کے باغیوں کا کنٹرول ہے۔
باغیوں کے قبضے میں سب سے بڑا صوبہ ادلب ہے جس کی آبادی 26 لاکھ ہے۔
ادلب کو 'غیر جنگی علاقہ'قرار دیا گیا ہے، لیکن حکومتی فوج اس پر یہ کہہ کر حملے کرتی رہتی ہے کہ یہاں القاعدہ کے جنگجو چھپے ہیں۔ ایس ڈی ایف اب رقہ پر بھی قابض ہے جو 2017 تک دولت اسلامیہ کا نام نہاد دارالخلافہ تھا۔ اس کے علاوہ مشرقی غوطہ پر حملہ جاری ہے، جہاں چار لاکھ کے قریب افراد 2013 سے حکومتی محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

جنگ کیسے ختم ہو گی؟
ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا تصفیہ جنگ سے نہیں سیاسی مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 2012 کی جنیوا مراسلے کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں صلاح و مشورے سے 'عبوری حکومت'قائم کی جائے۔ لیکن 2014 کے بعد سے اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں جنیوا 2 کہلائے جانے والے مذاکرات کے نو دور بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ صدر اسد حزبِ مخالف سے بات کرنے سے کترا رہے ہیں، جب کہ باغیوں کا اصرار ہے کہ پہلے اسد استعفیٰ دیں۔ اسی دوران مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ روس نے ایک متوازی سیاسی عمل شروع کر کے امن مذاکرات کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔ جنوری 2018 میں روسی نے 'آستانہ عمل'کا آغاز کیا، تاہم اس میں حزبِ اختلاف کی اکثر جماعتوں نے شرکت نہیں کی۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

فلسطینیوں کا روپ دھارے اسرائیلی ایجنٹس

$
0
0

فلسطینیوں کے روپ میں چھپے اسرائیل ایجنٹس کا انکشاف ہوا ہے جو موقع ملتے ہی فلسطینیوں کو مار ڈالتے ہیں یا اسرائیل فوج کے سامنے لے آتے ہیں تاکہ انہیں قتل کر دیا جائے اس گروپ کو ’مستعربین‘ کا نام دیا گیا ہے۔ عرب ویب سائٹ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایجنٹس فلسطینیوں کے لب و لہجے میں عربی بولتے ہیں، عین عربوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں ان کے چہرے فلسطینی رومال سے ڈھکے ہوتے ہیں، یہ اسرائیل مخالف مظاہروں میں اسرائیل کے خلاف نعرے لگاتے ہیں جب یہ فلسطینی مظاہرین میں شامل ہوتے ہیں تو اچانک اپنے لباس میں چھپی گنیں ان پر تان لیتے ہیں اور انہیں شہید کر دیتے ہیں یا پھر انہیں دور موجود اسرائیلی افواج میں بیٹھے اسنائپرز کا تر نوالہ بنا دیتے ہیں یا اسرائیلی افواج آگے بڑھ کر ان فلسطینیوں کو دبوچ لیتی ہے اس کے بعد تمام مظاہرین غائب ہو جاتے ہیں اور صرف ایک نعرہ سنائی دیتا ہے ’ مستعربین‘ ۔

مستعربین یا مستعروِم عبرانی زبان کا لفظ ہے جو عربی لفظ مستعرب سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ کسی ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو عرب زبان اور تہذیب سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو۔ لیکن اسرائیلی تناظر میں مستعربین ایسے لوگوں کو کہتے ہیں جو خاص خوفناک مشن لے کر فلسطین کی صفوں میں جا گھستے ہیں اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ اسرائیل کے سب سے چالاک ایجنٹ ہیں۔ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے مستعربین کا پہلا یونٹ 1942ء میں بنایا تھا۔ اسرائیلی ماہر اینٹوئن شالاٹ کے مطابق مستعربین اسرائیلی ایجنٹ ہوتے ہیں جو فلسطینیوں کی معلومات جمع کرتے ہیں اور فلسطینیوں کی سرگرمیوں اور احتجاج کو ناکام بناتے ہیں ان کی پشت پر اسرائیلی افواج کی حمایت موجود ہے۔

ان ایجنٹوں کو سخت فوجی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے فلسطینیوں کی طرح سوچنے لگتے ہیں۔ ان کا مشن خفیہ ہوتا ہے اور ایک کارروائی کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اور دوسرا یونٹ ان کی جگہ لے لیتا ہے۔ شالاٹ کہتے ہیں کہ ’یہ فلسطینیوں کی طرح فرفر عربی بولتے ہیں اور ان کے لہجے میں ہی بات کرتے ہیں، چار سے چھ ماہ کی تربیت میں وہ نماز اور روزے کی معلومات بھی حاصل کر لیتے ہیں، سب سے اہم مستعربین یونٹ رائمون تھا جو 1978ء سے لے کر 2005ء تک سرگرم رہا جو غزہ کی پٹی میں کارروائی کرتا تھا۔ پھر 80ء اور 90ء کی دہائی میں شمشون گروہ سرگرم رہا‘۔

اسی طرح 1980ء کا ڈووڈیون 217 ایلیٹ یونٹ سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود بارک نے بنایا تھا جو مغربی کنارے پر اب بھی سرگرم ہے۔ فلسطینی صحافی راشہ ہرزلا کے مطابق جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیا تو رملہ میں مستعربین کے کئی ایجنٹ مظاہرین میں داخل ہوئے اور تین نوجوان فلسطینی مظاہرین کو پکڑ کر لے گئے۔ یہ ایجنٹ 10 ماہ سے وہاں مقیم تھے اور ان کے لباس بھی فلسطینیوں جیسے تھے۔ انہوں نے 13 دسمبر 2017ء کو کامیاب کارروائی کی اور فلسطینیوں کو نقصان پہنچایا۔ ان میں پانچ افراد شامل تھے جنہوں نے پہلے ہوائی فائرنگ کی اور اس کے بعد لوگوں کو سامنے سے نشانہ بنایا۔ ان میں سرخ شرٹ پہنے ایک شخص نے بندوق لہرا کر مجھے کہا کہ قریب مت آؤ اور اس دوران اسرائیلی افواج بھی قریب تر آگئی۔

راشہ کے مطابق مستعربین اسرائیلی افواج پر پتھر پھینک رہے تھے لیکن صیہونی سپاہیوں نے انہیں کچھ نہ کہا۔ اس سے قبل مستعربین نے دو فلسطینیوں کو قریب سے سر اور ٹانگوں پر گولیاں ماری تھیں۔ پہلا شخص فوری طور پر شہید ہو گیا تھا جبکہ دوسرا نوجوان محمد زاہدے اب معذور ہو چکا ہے۔ مستعربین کی ہولناک کارروائیوں سے اب فلسطینی شدید محتاط ہو چکے ہیں۔ ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ ڈھیلی شرٹ پہنتے ہیں اور انہیں پینٹ کے اندر اڑس کر رکھتے ہیں تاکہ وہاں ہتھیار چھپا سکیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مظاہرین کو اسرائیلی فوج کے قریب لے جانا چاہے تب بھی فلسطینی ہوشیار ہو جاتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو

 

کیا شام کا مسئلہ ایک اقتصادی جنگ ہے؟

$
0
0

ہر جنگ کے کچھ اقتصادی اثرات ہوتے ہیں۔ شام کی جنگ ایک ایسی کثیر الجہتی پراکسی جنگ ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں شامل ہوتی جا رہی ہیں اور اس کے اقتصادی اثرات بھی وسیع ہوں گے۔
پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خام تیل، گیس اور ایلومینیم کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حالیہ دو ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات کسی نہ کسی طریقے سے شام میں جاری کثیر الجہتی پراکسی جنگ سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ امریکا ہر صورت میں شامی حکومت کے حامی روس اور ایران کی معیشت کو عالمی منڈیوں سے الگ کرتے ہوئے انہیں کمزور بنانا چاہتا ہے۔ امریکی خارجہ اور فوجی پالیسیوں میں یہ دونوں ممالک دشمن کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ سن 2017 میں امریکی حکومت نے کاسٹا (سی اے اے ایس ٹی اے) نامی ایک خصوصی قانون منظور کیا تھا، جس کا مقصد روس، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی جنگ میں مدد حاصل کرنا تھا۔

چند روز پہلے امریکا نے اسی کاسٹا نامی قانون کو استعمال کرتے ہوئے روسی مفادات کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کے ذریعے سات ایسی انتہائی بڑی کاروباری شخصیات کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن سے درجنوں کمپنیاں جڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح سترہ اعلیٰ روسی سرکاری عہدیداروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان میں روس کی ایلومینیم تیار کرنے والی روسل نامی کمپنی بھی شامل ہے، جس کا عالمی مارکیٹ میں نو فیصد حصہ ہے۔ ان پابندیوں کے بعد اس کمپنی کے شیئر فوراﹰ گرنا شروع ہو گئے تھے اور روسی کرنسی روبل کی قدر میں بھی کمی ہو گئی تھی۔ اسی ہفتے ایلومینیم کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا۔

امریکا نے روس کی دو بڑی توانائی کی کمپنیوں گیس پروم اور سورگونیفٹ گیس کے سربراہان پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اسی طرح روس کی اس آئل کمپنی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جو روس میں گیارہ فیصد خام تیل کی پیدوار کی ذمہ دار ہے۔ گیس پروم اور سورگونیفٹ گیس کمپنیوں پر فی الحال پابندیاں عائد نہیں کی گئیں کیوں کہ ایسا کرنے سے امریکا کے اتحادی یورپی ممالک کو گیس کی ترسیل میں خلل پیدا ہوتا اور پھر یورپ نے اس کی شدید مخالفت کرنی تھی۔ دوسری جانب  مقامی منڈی میں ایرانی ریال کی قیمت باسٹھ ہزار ریال فی امریکی ڈالر تک گر گئی تھی، جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی اور جو اس سے دو دن قبل سات اپریل کے روز ریال کی قیمت کے مقابلے میں 18 فیصد کم تھی۔

بشکریہ DW اردو
 

آصفہ نے یہ تصویر بڑے شوق سے کھنچوائی تھی

$
0
0

جموں کے قبائلی گجر خاندان سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی آصفہ، اس سال جنوری میں ہر روز کی طرح اپنے گھوڑوں کو گاؤں سے دور چراگاہوں کی طرف لے کر گئی۔ اور گھر نہیں لوٹی۔ والدین پڑوسیوں کے ساتھ رات بھر وہ ٹارچوں اور لالٹینوں کی روشنی میں جنگل میں دور دور تک ڈھونڈتے رہے۔ لیکن، بچی کا سراغ نہیں ملا۔ ایک ہفتے بعد اس کی لاش جنگل سے ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق، آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اُسے نشہ آور دوائیں کھلائی گئیں اور زیادتی کے بعد انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔

پولیس نے جب ملزموں کی نشاندہی کی تو مقامی آبادی کے کچھ لوگ پولیس کے خلاف ہو گئے۔ آٹھ سالہ بچی کے بہیمانہ ریپ اور قتل کو مذہبی ٹکراؤ کا رنگ دے دیا گیا۔ جموں کے وکلا اور ایک دائیں بازو کی ہندو تنظیم نے ملزموں کی حمایت میں جلوس نکالے۔ اور وکیلوں نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے پولیس کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا نے ملزموں کے حق میں نکالے جانے والے جلوسوں میں شرکت کی۔

کسی باپ یا ماں کے لئے سب سے ہولناک واقعہ اپنے بچے کی موت ہے اور پھر اگر وہ موت، اغوا، ٹارچر اور زیادتی کا نتیجہ ہو تو شائد ایسے ماں باپ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں، بار بار ان تفصیلات کو اپنے ذہن میں دہرا کر تڑپتے رہتے ہیں۔ آصفہ کے والد اختر صاحب بھی اس عالم برزخ میں ہیں ’’جب ہماری بچی کے ساتھ اتنا ہو گیا تو ہمیں بھی مار دیں! اس میں کیا ہے!! ہماری بچی کو سات دن کس طرح رکھا۔ کس بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اب ہم کو کیا خطرہ ہے۔ اتنی خوبصورت تھی وہ، اس کی باتوں سے ایسا لگتا تھا کہ کچھ بنے گی۔ اور اس کے ساتھ اتنی زیادتی کی گئی۔ اس کو اتنا ٹارچر کیا گیا۔ کرنٹ بھی لگایا۔ جب ہم نے اس کی ڈیڈ باڈی کو دیکھا تو۔۔۔ بہت بری طرح اس کو مارا تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ہمارے جیسا آدمی۔ کوئی نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔

یہ بات کہنے میں وہ کئی بار رکے۔ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ اور یہ بھی بتایا کہ ان کا ذہن بالکل سن ہو گیا ہے ’’کوئی بات یاد نہیں رہتی۔ ڈاکٹر نے بہت سی دوائیں دی ہیں تو اب بولنے کے قابل ہوا ہوں‘‘۔ ان کی پیاری بیٹی کی ایک تصویر ہر خبر کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔ جامنی پھولدار کپڑوں میں، سنہری مائل بھورے بالوں اور چمکیلی آنکھوں والی گڑیا۔ جس کی بے خوف آنکھوں سےبھی ایسا لگتا تھا کہ ’’کچھ بنے گی‘‘۔ والد کے مطابق، ’’یہ اس کی زندگی کی پہلی اور آخری تصویر تھی۔ بڑے شوق سے کھنچوائی تھی اس نے‘‘۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں کے بعض وکلاء کی طرف سے، ایک بچی قتل اور زیادتی میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف، پولیس کو فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کی کوشش کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔ اور ازخود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس کیس کی پیروی کرنے والی وکیل، دیپیکا رجاوت سے میں نے نئی دہلی میں بات کی۔ وہ کہتی ہیں: ’’سپریم کورٹ نے جو ’سوموٹو‘ ایکشن جاری کیا ہے اس کو میں انتہائی مثبت لے رہی ہوں۔ لگ رہا ہے کہ جو دیش کا سب سے بڑا کورٹ ہے، وہ کورٹ اگر اس ایشو پر جاگا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس بچی کو انصاف بہت جلد ملے گا‘‘۔

اس کیس میں ایک تازہ پیش رفت میں بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے اہل خانہ اور ان کے وکیل کو تحفظ فراہم کرے۔ وہ یہ بھی بتائے کہ کیا اس معاملے کو سماعت کے لیے چنڈی گڑھ کی عدالت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیس پر کام کرنے والے برادری کے سرگرم کارکن، طالب حسین نے جہاں اس معاملے میں آصفہ کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہونے والی ہندو برادری کو سراہا، وہاں انہیں یہ شکایت بھی تھی کہ نئی دہلی میں سیاست دانوں نے اس انسانیت سوز واقعے کو وہ توجہ نہیں دی جو نربھا کے المیے کو دی تھی۔ جب میں یہ بات کانگرس پارٹی کے ترجمان اور لوک سبھا کے سابق رکن میم افضل سے پوچھی تو انہوں نے اس کی تردید کی۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’نربھا کیس کی طرح اس واقعے نے بھی پورے ملک کو ہلا دیا ہے۔ اور راہول گاندھی سمیت پارٹی کی تمام بڑے لیڈروں نے اس کے خلاف بیان دئیے ہیں‘‘۔ تاہم، انہوں نے بڑے تاسف سے کہا ’’آج کل یہ بڑی عجیب و غریب بات ہو گئی ہے کہ کسی بچے کا ریپ ہو تو لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مذہب کیا تھا؟ ارے بچے تو بچے ہیں۔ کسی کے بھی ہوں، ہندو ہوں، مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی‘‘۔ اور آصفہ کے باپ کی صرف ایک اپیل ہے کہ :’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آصفہ کو انصاف دلا دو۔ ہماری چھوٹی سی بچی کے ساتھ جو ہوا، کل کسی اور کے ساتھ ہو گا تو کیا کر لیں گے؟ بس ان کو سزا ملنی چاہئے‘‘۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

فیس بک بانی مارک زکربرگ امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے

$
0
0

دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ پہلی بار امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے ۔  مارک زکربرگ امریکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے اس لیے پیش ہوئے، کیوں کہ گزشتہ ماہ یہ خبر سامنے آئی تھی کہ فیس بک کے 8 کروڑ صارفین کا ذاتی ڈیٹا چوری کر کے سیاسی مقصدوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ خبر سامنے آنے کے بعد فوری طور پر امریکا کے وفاقی ٹریڈ کمیشن ( ایف ٹی سی) نے فیس بک کے خلاف تحقیقات شروع کر دی تھی، جب کہ حیران کن طور پر سوشل میڈیا کے حصص میں کمی دیکھی گئی۔ اس اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اگرچہ فیس بک نے صارفین سے معذرت بھی کی تھی، تاہم سینیٹ کمیٹیوں نے مارک زکربرگ کو تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لیے بلایا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق مارک زکربرگ نے امریکی سینیٹرز کو آگاہ کیا کہ ان کی کمپنی اس وقت روسی ٹیکنالوجی آپریٹرز کے ساتھ ایک طرح کی حالت جنگ میں ہے۔

مارک زکربرگ نے دعویٰ کیا کہ روسی ٹیکنالوجی ماہرین ان کی کمپنی کو ہیک کر کے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم وہ انہیں اس مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ فیس بک کے بانی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں روسی آپریٹرز کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی ہو رہی ہے۔ انہوں نے سینیٹرز کو ’کیمبرج اینالاٹکا‘ (سی اے) کی جانب سے 8 کروڑ سے زائد صارفین کا ڈیٹا چرانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیے۔

ادھر امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے بتایا کہ زیادہ تر سینیٹرز کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ کس طرح کام کرتی ہے اور یہ صارفین کے ڈیٹا یا معلومات کو کس طرح ہینڈل کرتی ہے؟ خبر میں بتایا گیا ہے کہ چوں کہ امریکی سینیٹرز فیس بک کے کام کرنے اور سیکیورٹی کے طریقہ کار سے بے خبر تھے، اس وجہ سے وہ مارک زکربرگ سے اس طرح کے پیچیدہ سوال بھی نہ کر سکے۔ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی سینیٹرز نے مارک زکربرگ سے صارفین کی معلومات اور ڈیٹا کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ مارک زکربرگ نے امریکی سینیٹرز کو یقین دلایا کہ وہ صارفین کی ذاتی معلومات سمیت ہر طرح کے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے امریکی سینیٹرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

مارک زکربرگ نے سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تجارت و انصاف کی سینیٹ کمیٹیوں کو 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ مارک زکر برگ نے سینیٹرز کو آگاہ کیا کہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ان سے وائیٹ ہاؤس کے خصوصی قونصلر رابرٹ میولر نے بھی تفتیش کی تھی۔ فیس بک بانی نے بتایا کہ اگرچہ رابرٹ میولر نے ذاتی طور پر ان سے کوئی تفتیش نہیں کی تھی، تاہم انہوں نے ویب سائٹ کے اعلیٰ عہدیداروں سے انتہائی رازدارانہ تحقیقات کی تھی، جس کی تفصیلات کو خفیہ رکھا گیا ہے اور وہ کبھی اسے سامنے نہیں لائیں گے۔
فیس بک کے بانی 10 اور 11 اپریل کو امریکی سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوئے۔ 



Protests erupt after child rape cases shock India

$
0
0
Protests erupted across India after police officers and a politician were named separately in connection with two unrelated child rape cases, which are under investigation.











چار ہزار پاکستانیوں کا سودا کیوں ؟

$
0
0

قومی مفادات اورتقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں کس طرح آئین و قانون سے ماورأ من مانے اقدامات کئے جاتے رہے، ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دور آمریت میں جب آفتاب شیر پاؤ ملک کے وزیرداخلہ تھے، حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کے باوجود چار ہزار پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے ڈالروں کے عوض دوسرے ملکوں کے حوالے کر دیا گیا اور پارلیمنٹ سمیت کسی نے بھی انسانی حقوق کی پامالی کانوٹس نہیں لیا۔

اس تلخ حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بتایا کہ پرویز مشرف نے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا اعتراف بھی کیا تھا مگر ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین اورعدالتیں ہونے کے باوجود ان افراد کو آخر کیسے اور کس قانون کے تحت دوسرے ملکوں کے حوالے کیا گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جو قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین بھی ہیں کہا کہ پارلیمنٹ کو پرویز مشرف اور ان کے وزیر داخلہ کے اس اقدام کی تحقیقات کرنی چاہئے تھی مگر وہاں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔

تعجب خیز امر یہ ہے کہ پاکستان میں قانون کو مطلوب بعض معروف شخصیات سمیت بہت سے لوگ بیرونی ملکوں میں موجود ہیں لیکن یہ ممالک حوالگی کے دو طرفہ معاہدے کی عدم موجودگی یا دوسری وجوہات کو جواز بنا کر انہیں پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر رہے ہیں جبکہ ایک ڈکٹیٹر نے کسی جواز کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو ڈالر لے کر دوسرے ملکوں کی تحویل میں دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ کئی غیر ملکیوں کو بھی جو پاکستان میں جاسوسی اور دوسرے جرائم میں ملوث پائے جاتے رہے، انہیں مقدمات چلائے اور سزائیں دلائے بغیر سیاسی مصلحتوں کی آڑ میں بحفاظت باہر جانے دیا گیا۔ یہ رویہ قومی مفاد ہی نہیں، ایک خود مختار قوم کی غیرت کے بھی منافی ہے۔

اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افراد کی جانب سے کمیشن کو 368 کیسز موصول ہوئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ سے ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز پاکستان کی بجائے غیر ملکوں کے مفاد میں کام کر رہی ہیں اورانہیں فنڈنگ بھی انہی ممالک کی جانب سے ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی این جی اوز پر پابندی لگنی چاہئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ ریاست کی ذمہ داری ہیں۔

اگر لاپتہ افراد دہشت گردی میں ملوث ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اہل خانہ بھی دہشت گرد ہیں۔ ریاست کو ان کی خبر گیری کرنی چاہئے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے لاپتہ افراد اورغیر ملکیوں کو بیچے جانے والے پاکستانیوں کے بارے میں جو حقائق بیان کئے ہیں، پالیسی سازوں کو ان پر توجہ دینی چاہئے اور حکومتوں کی جانب سے اس معاملے میں جو کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کے علاوہ ایسی بے قاعدگیوں کا اعادہ روکنے کےلئے ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

شام کی لڑائی میں ترکی کہاں کھڑا ہے؟

$
0
0

مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور شام دو ایسے ممالک ہیں جو روس کے ساتھ بڑی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ دراصل ان دونوں ممالک کی یہ وابستگی ان کی بقا کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ ایران کے دور میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ملک تھے لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے جس کے نتیجے میں ایران امریکہ کی گود سے نکل کر روس آغوش میں جا گرا اور اس وقت سے روس ایران کے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آرہا ہے اور دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے ہیں۔ 

شام کے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی قریبی تعلقات نہیں رہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شام ہی واحد ملک تھا جس کے سوویت یونین کےساتھ تعلقات اپنی بلندیوں کو چھو رہے تھےاور حافظ الاسد کے انتقال کے بعد بشار الاسد نے برسر اقتدار آنے پر اپنے والد سے ہٹ کر پالیسی اپنائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لئےخصوصی توجہ دی اوراس دور میں بشار الاسد کو دنیا بھر میں مقبولیت بھی حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ بشار الاسد نے اسی دوران ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات جو کہ بہت ہی خراب تھے کو بہتر بناتے ہوئے ترکوں کے دلوں میں بھی جگہ بنائی۔ 

ترکی اور شام کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کا ایک دور ایسا بھی آیا جب
دونوں ممالک کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوئے اور دونوں ممالک نے تعاون کے باون مختلف سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے۔ بشار الاسد، صدر ایردوان کو اپنا بڑا بھائی سمجھنے لگے اور دونوں رہنما شیر و شکر ہو گئے۔ ترکی کے صدرایردوان نے مشرقِ وسطیٰ میں’’ بہارِ عرب‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی نئی جمہوری تحریک کے بعد شام میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور ملک میں جمہوری اصلاحات کرنے کی تلقین کی اور بشار الاسد اس تلقین کو قبول کرتے ہوئے بھی دکھائی دئیے لیکن خفیہ قوتوں نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا.

حالانکہ صدر ایردوان نے اس سلسلے میں بشار الاسد سے کئی بار قریبی رابطہ قائم کیا اور جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کے لئے ہر ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی لیکن یہ بیل منڈھے چڑھنے میں ناکام رہی اور دونوں رہنما ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئےاور پھر شام میں شروع ہونے والی بہار عرب کی تحریک خانہ جنگی کا روپ اختیار کرتی چلی گئی اور اُس وقت سے اب تک شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ شام میں گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں ہی کی تعداد میں شامی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس دوران بشار الاسد انتظامیہ نے مخالفین سے چھٹکارا پانے کے لئے بمباری کے ساتھ ساتھ کیمیائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ 

شامی انتظامیہ نے سب سے پہلے 19مارچ 2013ء کو اپنے ہی زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس استعمال کی جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ ترکی کے صدر ایردوان نے سات اپریل کے شامی انتظامیہ کے حالیہ کیمیائی حملے کے بعد کہا کہ ’’ اگر امریکہ کے اتحادی 2013ء میں ہی شام کے ان کیمیائی حملوں کے خلاف کارروائی کرتے تو شام کو دوبارہ کیمیائی حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ شامی انتظامیہ نے 2013 ہی میں 21 اگست کو مخالفین کے زیر کنٹرول علاقے غوطہ پر کیمیائی حملہ کیا جس میں 14 سو سے زائد افراد مارے گئے ۔27 ستمبر 2013ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے تلف کرنے کاحکم دیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں طاقت کے استعمال کی وارننگ بھی جاری کی جس پر شامی انتظامیہ نے اکتوبر 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کی مزاحمت کار تنظیم (OPCW) کی نگرانی میں اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دئیے اور 23 جون 2014ء کو OPCW نے شام میں تمام کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنائے جانے کا اعلان کیا۔

لیکن مارچ 2017ء میں شام میں انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ادلب میں مخالفین کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر کیمیائی حملے میں 88 افراد کے ہلاک ہونے سے آگاہ کیا اور 7 اپریل 2018ء کے دوما میں حالیہ کیمیائی حملے نے امریکہ اور اس کے دو اتحادی ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق کے ضلعے برضح اور حمص کے قریب واقع دو حکومتی تنصیبات پر مجموعی طور پر 105 میزائل داغے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں میں شامی حکومت کے زیر استعمال کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے تین مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ شامی خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی یہ سب سے بڑی عسکری مداخلت ہے۔ تاہم امریکہ، فرانس اور برطانیہ کیمطابق ان حملوں میں فقط شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ یا شامی تنازعے میں مداخلت نہیں تھا۔

ترک صدر ایردوان نے دنیا کو بہت پہلے ہی شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں متنبہ کیا تھا اوراس کے خاتمے کے لئے اپنی بھرپور کوششیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے ہوئے ان کے زخموں پر مرہم رکھا اور اس سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ شام میں معصوم انسانوں کو مرنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے روس اور امریکہ کے رہنمائوں سے شام کے مسئلے پراحتیاط کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے امریکہ کے صدر ٹرمپ اور روس کے صدر ولادِ میر پیوٹن سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ٹیلی فونک بات چیت کی۔ دیکھا جائے تو ترکی ہی علاقے میں واحد ملک ہے جو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ بڑے خوشگوار تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان سپر قوتوں سے برابری کی سطح پر اپنی باتیں منوانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ ترکی ایک طرف نیٹو کا رکن ملک ہے تو دوسری طرف اس کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں۔

اس سے ایس 400 میزائل خرید رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پہلا ایٹمی پلانٹ بھی روس ہی کے تعاون سے لگایا جا رہا ہے۔ ترکی اپنے ان تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس اور امریکہ کے درمیان شام کے معاملے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں روسی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، ولادیمیر شمانوف کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور روس کےفوجی سربراہان کے درمیان ترکی کے توسط سے رابطہ قائم ہوا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ بھی ترکی کے دورے پر پہنچے اور انہوں نے صدر ایردوان سے علاقے کی صورتِ حال پر بات چیت کی۔ گزشتہ ہفتے ہی انقرہ میں صدر ایردوان کی نگرانی میں شام کی صورتِ حال سے متعلق سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں روس کے صدر ولادِ میر پوتن اور ایران کے صدر حسن روحانی نے شرکت کی تھی اور اب یہ سہ فریقی سربراہی اجلاس ایران میں منعقد ہو گا۔ شام سے متعلق سربراہی اجلاس سے ترکی شام کے حامی اور شام کے مخالف ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے ایک ثالث اور انسان دوست ملک ہونے کا بھی ثبوت فراہم کر رہا ہے۔

ڈاکٹر فر قان حمید
 

سی آئی اے کے سربراہ کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے "خفیہ"ملاقات

$
0
0

امریکی خفیہ ایجنسی "سی آئی اے"کے سربراہ مائک پومپیو نے شمالی کوریا کا خفیہ دورہ کیا ہے جہاں مبینہ طور پر ان کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس امر کا دعوی امریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ"اپنی حالیہ اشاعت میں کیا ہے۔ اس خبر کی تصدیق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ شمالی کوریا سے اعلیٰ ترین سطح پر براہ راست بات چیت ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق شمالی کوریا اور امریکہ کے حکام کی براہ راست بات چیت ہوئی ہے تاکہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان تاریخی ملاقات کے بارے میں معاملات طے کیے جا سکیں، تاہم امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ بات چیت میں کون شامل تھا۔

فلوریڈا میں صدر ٹرمپ نے جاپان کے وزیراعظم شِنزو آبے سے ملاقات کے موقعے پر بتایا کہ’ہماری اعلیٰ ترین سطح پر براہ راست بات چیت ہوئی ہے اور اس وقت پانچ مقامات زیر غور ہیں جہاں میری کم جونگ ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔‘ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ ملاقات جون کے ابتدا میں یا اس سے کچھ دیر پہلے ہو سکتی ہے۔ جاپانی وزیراعظم شِنزو آبے نے شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات پر رضامند ہونے کے جرات مندانہ فیصلے کی تعریف کی۔ خیال رہے کہ جاپان کو خدشات ہیں کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان باہمی بات چیت کے منصوبے میں جاپان نظرانداز ہو سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کہا کہ دونوں ممالک شمالی کوریا کے معاملے پر متحد ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کا ایک مقصد امریکی صدر کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ مغرب شمالی کوریا کے خلاف سخت موقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ رواں ماہ کے شروع میں امریکی حکام نے بتایا تھا کہ شمالی کوریا نے وعدہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں وہ امریکہ سے اپنے جوہری ہتھیاروں اور ان کے مستقبل کے بارے میں بات کرے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کی ملاقات کی خبر مارچ میں سامنے آئی تھی اور وہ عالمی برادری کے لیے نہایت حیران کن تھی۔ واضح رہے کہ اس خبر کے آنے سے ایک سال قبل تک ان دونوں کے درمیان لفظی جنگ جاری تھی جس میں دونوں نے ایک دوسرے کی ذات پر حملے کیے اور دھمکیاں تک دی تھیں۔

 

امریکہ، روس شام میں کشیدگی بڑھانے کے خواہاں نہیں ۔ لیکن، کیا وہاں اُنہی کا کنٹرول ہے؟

$
0
0

گذشتہ ہفتے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے شام میں وسیع تر لڑائی بھڑکانے سے احتراز برتا، جب مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جواب میں اُنھوں نے بشار الاسد کے خلاف ٹھیک ٹھیک نشانے پر میزائل داغے۔ لیکن، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آگے بہت سے خطرات لاحق ہیں جن کے سبب بڑی طاقتوں کے علاوہ ہمسایہ ملک شام کی دلدل میں الجھ سکتے ہیں جس کا نتیجہ ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تنازع کے صورت میں سامنے آسکتا ہے، بیشک وہ اس سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے اسد کو اقتدار سے ہٹانے کا معاملہ ترک کر دیا ہو اور ترکی کی سرحد کے قریب شمال اور اردن سے ملحقہ جنوب میں چند مقامات ہیں جن پر ہی باغیوں کا کنٹرول باقی رہ گیا ہے، جب کہ شام کے تنازع کا خاتمہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔

چھوٹے چھوٹے تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، حالانکہ جو فریق تنازع میں ملوث ہیں اُن کے لیے یہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، جب کہ معاملہ طاقت کی سطح کو مضبوط کرنے پر الجھن اور جستجو کا ہے۔ متعدد غیر ملکی طاقتیں لڑائی کے بعد شام کی تعمیر نو میں نہ صرف دلچسپی رکھتی ہیں، بلکہ ایسا کر کے اپنے طویل مدتی مفاد کو قائم رکھنے کی خواہاں ہیں، اور ساتھ ہی جو علاقہ اس وقت اُن کے قبضے میں ہے وہ اُسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔ شمال میں ترکی امریکہ کے شامی کُرد اتحادیوں کے خلاف کارروائی تیز کرنا چاہتا ہے، اور اسے وسیع تر کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ سنی عرب باغی اور کُرد ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے درپے ہیں، جس پر امریکہ متوجہ ہو سکتا ہے۔ ادھر، القاعدہ اب بھی ایک مہلک اور با اثر فورس ہے جب کہ داعش گروپ کی باقیات پر حاوی پانا ابھی باقی ہے۔

ترکی کے علاوہ، کافی علاقہ ایسا ہے جو ایرانی ملیشیاؤں کے قبضے میں ہے، جس میں ایران کا لبنانی ساتھی حزب اللہ شامل ہے، جس نے ملک کے کئی فوجی اڈے تعمیر کیے ہیں، جس کام میں عراق اور افغانستان سے آنے والے ایرانی قیادت والے شیعہ افراد شامل رہے ہیں۔ اور، شام میں بیرونی طاقتوں کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ وہ کس طرح اپنے نام پر جاری جھگڑوں سے جان چھڑائیں اور بناوٹی ساتھیوں سے کس طرح دور رہیں، جس کثیر فریقی پیچیدہ صورت حال میں ملیشیائیں، جنگجو اور ملک آ جاتے ہیں، جن سبھی کے ایجنڈے متضاد نوعیت کے ہوتے ہیں۔

امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے شام کی تین سرکاری تنصیبات کا صفایا کرنے کے لیے داغے گئے 105 کروز میزائل حملوں کے بعد مغربی سیاسی اور فوجی قائدین کو ایک سکون ملا۔ صورت حال تب بدتر ہوتی اگر سزا دینے کی اِس کارروائی کے دوران جوابی روسی کارروائی سامنے آتی۔ اور داغے گئے میزائلوں کو مار کرانے کی شامی فوج کی کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، حالانکہ، پینٹاگان کے حکام کے مطابق، روس اور شام نے اس قسم کے دعوے ضرور کیے۔ تاہم، صورت حال بگڑنے کا خدشہ اب بھی باقی ہے، حالانکہ ہفتے کو ایسا نہیں تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، سب سے بڑا خطرہ شام میں اسرائیل اور شام کے درمیان الجھاؤ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ
 

اردوان کا ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان

$
0
0

ترک صدر طیب اردوان نے ترکی میں ڈیڑھ سال قبل ہی عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترک صدر طیب اردوان نے صدارتی محل میں اپوزیشن پارٹی ’نیشنل موومنٹ پارٹی‘ کے سربراہ ڈیوٹ باہچلی سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے ملک میں قبل از وقت انتخابات کروانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن رہنما سے مشاورت کے بعد ترکی میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات مقررہ وقت سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل 24 جون کو کرانے کا فیصلہ کیا۔ 

ترک صدر کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے ہی کیا جائے گا تاہم انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں کیوں کہ اس وقت ملک کو فوری انتخابات کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب ترکی میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کا ملک میں نافذ ایمرجنسی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایمرجنسی کی حالت میں انتخابات نہیں ہو سکتے۔ واضح رہے ترکی میں جولائی 2016 کی ناکام بغاوت کے بعد سے ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی جو اب تک برقرار ہے۔
 

انٹارکٹکا : برفیلے براعظم کے حیرت انگیز نظارے

$
0
0

سال 2018 کے آغاز میں روئٹرز کے فوٹوجرنلسٹ الیگزینڈر مینیگھنی نے خوبصورت اور خطرے سے دوچار انٹارکٹکا کا دورہ کیا تھا۔

یہ دورہ گرین پیس نے ترتیب دیا تھا اور اس کا مقصد یورپی یونین کی جانب سے اس کو محفوظ علاقہ قرار دینے کی تجویز کے حوالے سے آگہی پیدا کرنا تھا کہ ایسی محفوظ پناہ گاہ جہاں آبی زندگی نشو نما پا سکے۔

وہ اس براعظم تک چار دن کے سمندری سفر کے بعد پہنچے اور اس دوران ان کا سامنا وہیلوں، پینگوئنوں اور بڑے بڑے گلیشیئروں سے ہوا۔

مجوزہ ویڈیل سنی میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) 18 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہو سکتا ہے جو وہیلوں، سیلوں، پینگوئنوں اور مچھلیوں کی بہت سے اقسام کو قدرتی ماحول فراہم کرے گا۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ زمین پر سب سے بڑا محفوظ علاقہ ہو گا۔

چلی کے علاقے پونتا آریناس سے سفر کا آغاز کرتے ہوئے اس عملے نے موسیماتی تبدیلی، آلودگی اور مقامی جنگی حیات کے شکار کو ڈاکومنٹ کرنا شروع کیا۔

گرین پیس کے مہماتی رہنما ٹام فورمین نے کہا کہ 'انٹارکٹا بذات خود انٹارکٹک معاہدے کے تحت محفوظ کیا گیا ہے، لیکن انٹارکٹکا کے گرد پانیوں میں پانیوں کو نقصان پہنچنے کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔' وہ کہتے ہیں کہ 'چنانچہ ان علاقوں کو محفوظ بنانے کا موقع کھویا نہیں جا سکتا جو مختلف طور پر یہاں بڑی تعداد میں رہنے والے جانداروں کے لیے انتہائی اہم ہے۔' ہیلی کاپٹر سے انھوں نے پنگوئنوں کے علاوہ دریائی سمندر سیلوں کا بھی نظارہ کیا۔


کیوبا ، کاسترو خاندان کا اقتدار ختم

$
0
0

میگوئیل ماریو دیاز کاینل برمُوڈیس کو کیوبا کا نیا صدر نامزد کر دیا گیا ہے۔ 57 سالہ رہنما نے کہا ہے کہ کیوبا میں کیمونسٹ انقلاب کا سلسلہ جاری ہے اور یہ نہیں رکے گا۔ یاد رہے کہ وہ راؤل کاسترو کی جگہ اس منصب پر فائز ہوں گے ۔  بتایا گیا ہے کہ راؤل کاسترو نے ہی انہیں منتخب کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ کیوبا میں کیمونسٹ انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار کاسترو خاندان سے نکل کر کسی اور کو منتقل ہو رہا ہے تاہم، ماہرین کے مطابق دیاز کانیل کاسترو خاندان کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔
 


مسلم خاتون ہاتھ نہ ملانے کی پاداش میں فرانسیسی شہریت سے محروم

$
0
0

فرانس میں ایک مسلم خاتون کو ہاتھ نہ ملانے پر ملک کی شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان خاتون نے فرانسیسی شہریت ملنے کی تقریب کے دوران عہدیدار سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔
فرانس کی حکومت نے خاتون کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے فرانس کی اعلیٰ انتظامی عدالت نے برقرار رکھا ۔ مسلم خاتون نے فرانسیسی شہری سے 2010میں شادی کے بعد اپریل 2017 میں شہریت کے لئے درخواست دی تھی ۔

خاتون نے فیصلے کو’اختیارات کا غلط استعمال‘ قرار دیا ہے تاہم، ایسے معاملات کی حتمی سماعت کرنے والی عدالت کا موقف ہے کہ حکومت نے قانون کا غلط استعمال نہیں کیا۔ حکومت نے واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ خاتون کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرانسیسی معاشرے میں ضم ہونا نہیں چاہتی لہذا ایسا عمل سول قانون کے تحت کسی بھی فرانسیسی شہری کے شریک حیات کو ملک کی شہریت دینے سے روکتا ہے۔
 

اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ملائیشیا میں فلسطینی سائنس دان کو قتل کر دیا

$
0
0

اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ نے ملائیشیا میں فلسطینی راکٹ سائنس دان کو قتل کر دیا۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں علی الصبح پیش آیا جہاں نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے گھر جاتے ہوئے نامعلوم مسلح ملزمان نے فلسطینی سائنس دان پروفیسر فادی محمد البطش کو گولیاں مار دیں۔ کوالالمپور پولیس کے سربراہ مزلان لازم نے بتایا کہ موٹرسائیکل سوار 2 ملزمان نے پروفیسر پر براہ راست فائرنگ کی، ملزمان نے مقتول پر 10 گولیاں فائر کیں جس میں سے 4 ان کے جسم میں پیوست ہو گئیں اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

ملائیشیا کے ڈپٹی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزمان کا تعلق ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی سے بتایا جا رہا ہے جب کہ ملائیشیا میں فلسطینی سفیر کے مطابق عینی شاہدین نے انہیں بتایا کہ فائرنگ کرنے والے ملزمان چہرے سے یورپی باشندے لگ رہے تھے۔ مقتول کے اہل خانہ نے بھی البطش کے قتل کا ذمہ دار موساد کو قرار دیا ہےاور ملائیشین حکومت سے مقتول کا جسد خاکی غزہ بھیجنے کی بھی اپیل کی ہے۔
 

وسطی ایشیا کے خانہ بدوش منگول آخر کون تھے ؟

$
0
0

وسطی ایشیا کے خانہ بدوش منگول آخر کون تھے جنہوں نے چنگیز خان اور دیگر کی سربراہی میں مغربی یورپ اور اسلامی دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان کا رہن سہن کیسا تھا ؟ لین پول کی تحقیق کے مطابق منگول باقی قبیلوں کی طرح کا ایک قبیلہ تھا لیکن وہ ان قبیلوں میں اپنی منفرد عزت ضرور رکھتا تھا۔ ان آبادیوں کے جنوب میں صحرائے گوبی تھا جہاں دیگر قبائل سارا سال پانی اور اپنے جانوروں کے لیے چارہ تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے تھے۔ ان کی تمام عمر شکار کرتے گزر جاتی تھی۔ جانوروں کا شکار ان کا پیشہ تھا۔ انہی جانوروں سے وہ گوشت دودھ، اون اور چمڑا حاصل کرتے تھے۔ 

ان کا گزر بسر جانوروں کی کھالوں کے لین دین پر ہوتا تھا۔ ان قبائل کا لین دین ترکوں اور ہمسایہ طاقت چین سے تھا۔ قبائل بیرونی حملوں اور ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہنے کے لیے چین کو خراج یا ٹیکس ادا کرتے تھے۔ اس دورافتادہ علاقے کے بارے میں معلومات تیرہویں صدی میں دستیاب ہوئیں جب دو یورپی انگریزوں فریز جان اور فریر ولیم نے علاقے میں پہنچ کر باقی دنیا کو ان قبائل کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ اس کے علاوہ مارکو پولو کے سفر نے دنیا کو منگول اور چین کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

منگول لکڑی کے فریم کے اوپر بنائے جانے والے گول سے خیموں میں رہتے تھے۔ انہیں یورٹ کہا جاتا ہے۔ اس کی چھت پر تیل سے بھیگا ہوا نمدا ہوتا تھا جس پر سفید چونا پھیر دیا جاتا۔ یہ ڈھانچہ برف یا بارش کے پانی اور تند و تیز ہواؤں سے خیمے کو محفوظ رکھتا تھا۔ خیموں کا دروازہ شمال کی جانب رکھا جاتا تھا۔ دور سے یہ خیمے مشروم کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ ان خیموں کو چھکڑوں کے اوپر بھی رکھا جاتا تھا۔ ہجرت کرتے وقت یہ خانہ بدوش اپنے خیمے یا تمبو اٹھا کر ساتھ لے جاتے تھے۔ کیمپوں کی جگہ کا انتخاب کرتے وقت گرمی اور سردی کے موسموں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ سامان بیل گاڑیوں کے ذریعے لایا جاتا تھا۔ خیموں کے دروازے رنگ دار ہوتے تھے۔ ان دروازوں پر خوبصورتی کے لیے پودے، بیلیں اور درخت بھی لگائے جاتے تھے۔ خیمہ نما یہ گھر آج بھی خانہ بدوش منگول استعمال میں لاتے ہیں۔ 

منگول جنگلی جانور اور پرندے بھی پالنے کے شوقین تھے۔ خیموں کے اندر فرش پر سوکھی گھاس ڈالی جاتی تھی جس کو جانوروں کی کھالوں اور ہاتھ سے بنی دریوں سے ڈھانپا جاتا تھا۔ خیموں کے اندر عورتوں کے بیٹھنے کی جگہ مردوں سے ہٹ کر بنائی جاتی تھی۔ خیموں کے اندر موجود آتش دانوں سے ذرا ہٹ کر گھر کا مالک کاوچ پر بیٹھتا تھا۔ خیمے کے وسط میں دھوئیں کے اخراج کے لیے ایک سوراخ رکھا جاتا تھا۔ خیموں کے اندر بیٹھنے کا ایک مخصوص انتظام ہوتا تھا۔ گھر کے مالک کے کاوچ سے آگے اس کا بھائی پھر اس کے آگے اس کی بیوی کا بھائی اور اسی طرح رتبے کے لحاظ سے نشستیں لگائی جاتی تھیں۔

مقصود شیخ


 

’دا گریٹ مارچ آف ریٹرن‘، فلسطینیوں کے اسرائیل کی سرحد کے قریب مظاہرے

$
0
0

فلسطینیوں کی جانب سے لگاتار چوتھے ہفتے بھی غزہ اور اسرائیل کی سرحد کے قریب مظاہرے جاری ہیں۔

 ہر جمعہ کے روز فلسطینی مظاہرین غزہ اور اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کرتے ہیں۔ ان مظاہروں میں حکام کے مطابق آنسو گیس اور فائرنگ کے نتیجے میں سینکڑوں مظاہرین زخمی ہو چکے ہیں.

اسرائیلی فوج کی جانب سے نہتے فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کے باعث عالمی سطح پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے.

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فلسطینی مظاہرین اس ہفتے ایک نئی ترکیب کا استعمال کر رہے ہیں۔

مظاہرین بڑی بڑی پتنگوں کے ساتھ مولوتوو لٹکا کر غزہ اور اسرائیلی سرحد کے قریب چھوڑ رہے ہیں. ان میں سے کچھ پتنگوں کے ساتھ نوٹ لگے ہوئے ہیں جن پر اسرائیلیوں کے لیے لکھا ہے ’فلسطین میں تم لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے.‘

حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں 15 سالہ لڑکے سمیت مزید 4 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں اور اب تک اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں شہادتوں کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ہے. 

فلسطینیوں کی جانب سے ان مظاہروں کو ’دا گریٹ مارچ آف ریٹرن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مظاہرے 30 مارچ کو شروع کیے گئے تھے اور امکان ہے کہ ان کا اختتام 15 مئی کو ہو گا.



Rao Anwar found ‘responsible’ of Naqeeb Mehsud’s murder

$
0
0
Rao Anwar, who was remanded in custody, has been found responsible for the murder of Naqeebullah Mehsud, an aspiring Pashtun model from the country’s tribal region. Mehsud was killed in a fake police encounter on Jan. 12 this year. “Rao Anwar has been found guilty,” a senior official who is part of the Joint Investigation Team (JIT) probing Anwar, told Arab News. The apex court on March 24 had formed a JIT headed by Aftab Ahmed Pathan, Additional IG Sindh, to probe the incident. The JIT comprised  Waliullah Dal, Additional IG Special Branch; Azad Ahmed Khan, DIG South; Zulfiqar Larik, DIG East; and Dr. Rizwan Ahmed, SSP Central Karachi.

The official, who requested anonymity, told Arab News that the JIT report will be produced in the court once signed by all of its members. Anwar was presented before the Anti-Terrorism Court (ATC) in Karachi on Saturday which sent him on judicial remand to prison till May 2, prosecutor Zafar Solangi told Arab News. When asked for a comment upon his appearance at the ATC, Anwar said: “I have challenged the JIT and I don’t accept its findings.” He further claimed: “I have not recorded any statement before this JIT.” On April 5, Anwar filed a petition praying for the inclusion of representatives of “the intelligence agencies, armed forces and civil armed forces.”

Anwar claimed that the inclusion of the members from intelligence agencies and armed forces was required by law. The police officer was brought to the court amid tight security arrangements, where he was produced along with 11 other accused. Investigation officer, SSP Dr. Rizwan Ahmed, who is also part of the JIT probing the incident, told the court that investigations are underway and the JIT’s report will be presented before the court once it was finalized. He sought a week for the submission of the report. Anwar was given into 30-day police custody upon the last court hearing. Anwar, who is accused of killing Mehsud in a fake police encounter, claims that the slain Pashtun model was an active member of banned terrorist outfits Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP), Al Qaeda, and Lashkar-e-Jhangvi (LeJ). However, the evident subsequently began to pile up against the police team involved in his killing.

Following the incident, a formal inquiry was launched against Anwar. As pressure mounted on him, he decided to go underground and even made a botched attempt to fly out of Pakistan. He also wrote a few letters to the Supreme Court after the top court began a suo motu hearing of Naqeebullah’s murder, telling the judges that the system was heavily stacked against him and he was not hopeful of getting any justice in the case. In response, the country’s top court decided to grant him some relief, asking him to surrender himself and let the law take its course. The court was also willing to reconstitute a joint investigation team to look into Naqeebullah’s killing since the absconding police officer had voiced concern over its composition.

Authorities froze Anwar’s accounts after his repeated non-appearance before the court. In a surprise move last month, the absconding police officer came to the court in a white car. He was clad in a black dress and wore a medical mask to cover his face. Anwar’s lawyer told the chief justice that his client had “surrendered” and wanted protective bail. However, the Supreme Court turned down the request and ordered the law enforcement authorities to lock up the former SSP.

Source : Arab News
Viewing all 4738 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>